
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
مذکورہ دور میں کہیں خوشی ہو یا مرگ رات کو ہی دیگیں چڑھ جاتیں، پورا گاوں کام میں ہاتھ بٹانے کو موجود، گھر کے مالکان کو کچھ پتا نا ہوتا کہ کیسے کام سر انجام پا رہے ہیں۔ بیٹھکیں پڑوسیوں کی بناء کہے بھی کھلی ہوتیں کہ جو مہمان طویل سفر طے کر کے آتے تھے ان کی رہائش کا بندوبست بھلا اب صاحبِ خانہ کیوں کریں۔ یہ تو اہل محلہ کی ذمہ داری ہے۔ اور وہ سر انجام بھی بخوبی دیتے تھے۔
کھانے پکانے کے لیے لکڑیوں کا بندوبست کیسے ہو گا، دیگیں کیسے آئیں گی، چولہے بنانے کے لیے اینٹیں اور پتھر کہاں سے آئیں گے، گوشت لانے کی ذمہ داری کس کی ہے، روٹی پکانے کے لیے لوہ (لوہ بنیادی طور پر لوہے سے بنا بڑا توا کہہ سکتے ہیں۔ جس کا سائز عام توے سے کم و بیش پانچ سے دس گنا بڑا ہوتا تھا) کہاں لگے گی۔ لوہ پہ پکنے والی روٹی کو دستر خوان تک لے جانے کا ذمہ کون اٹھائے گا۔ برتاوے کون کون ہوں گے، اور جو برتاوے ہوتے تھے مجال ہے جو تمام مہمانوں کے نمٹ جانے سے پہلے ایک نوالہ بھی نوش کر لیں۔ اور کوئی شرارت سے ایسا کر بھی لیتا تو اس کی وہ لے دے ہوتی تھی کہ بیچارہ منہ چھپاتا پھرے۔ نیندرہ لکھنے کی ذمہ داری کس کی ہو گی، نیندرہ لکھنا، حساب کتاب لکھنا اور دن کے اختتام پر صاحبِ خانہ کے حوالے کرنا بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتی تھی جس کے لیے محلے کے سب سے پڑے لکھے افراد کے نام قرعہ نکلتا تھا۔ ٹینٹ گاڑھنا کس کا ذمہ ہو گا، کرسیاں لگانے کے لیے کون نگرانی کرئے گا۔ پنڈال کے عارضی کچن میں دیگیں بھری ہوئی کون لائے گا، خالی دیگیں واپس کون لے جائے گا، کس میز پہ کس نے فرائض سر انجام دینے ہیں، پشت پہ ہاتھ باندھ کے چلتے ہوئے بس دیکھ بھال کی ذمہ داری کس کی ہو گی، یہ سب باتیں طے ہوتی تھیں۔
لیکن یہ سب کچھ تاریخ میں گم ہو رہا ہے۔ریڈی میڈ کی آسانی نے سادہ سی خوشیاں بھی بھلا دی ہیں۔
ایک عرصے بعد خوشی کی دعوت پہ جب اُسی طرح دوبارہ دیگیں کھڑکتی دیکھیں تو دل میں ناجانے کچھ ٹوٹ سا گیا کہ ہم بہت سادہ سی خوشیاں پیچھے چھوڑتے جا رہے ہیں۔ اور ایسی دنیا میں گم ہوتے جا رہے ہیں جو انسانوں کو مصروفیت میں نگل رہی ہے۔ کہنے کو تو یہ بہت عام سی بات لگتی ہے کہ بھلا دیگیں گھر پہ پکیں یا کیٹرنگ کی دوکان پر کیا فرق پڑتا ہے، لیکن گہرائی سے جائزہ لیجیے یہ سادگی مفقود ہونا انسان کو پریشان کر گیا ہے۔ ہماری نسل شائد آخری نسل ہو گی جو ان سادہ روایات کی امین ہو گی کیوں کہ اب آنے والی نئی نسل ایسی سادہ سی خوشیوں سے یکسر نا آشنا ہو گی۔ اور وہ تو یہ جان بھی نا سکیں گے کہ جذبوں میں خلوص کس قدر زیادہ تھا۔ روایات کی مضبوطی کیسے ایک مضبوط اور مثبت معاشرہ تشکیل دیے ہوئے تھی۔ ہم اُس نسل کے آخری نمائندے ہیں جنہوں نے گلی محلوں میں سانجھی خوشیاں اور سانجھے غم دیکھے ہیں۔جو یہ جانتے ہیں کہ مکانات کچے تھے لیکن خلوص کتنا مضبوط تھا۔ ورنہ آج کل تو دور ایسا آ گیا ہے کہ، ساتھ دینا تو دور کی بات، خوشی ہو یا مرگ ساتھ والے گھر کے مکینوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.