
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
منشور پہ تین سال بعد کم و بیش پچاس فیصد تو عمل ہو جانا چاہیے تھا، کتنا عمل ہوا، سب کے سامنے ہے۔
کسی ایک سکینڈل پہ حکومت چھوڑنی تھی، کتنے سکینڈل آئے لیکن جوں تک نا رینگی۔ کابینہ مختصر ترین ہو گی، اعلانیہ کابینہ کا حجم ویب سائیٹ پہ ملاحظہ ہو سکتا ہے۔ ہمیشہ گلہ کیا جاتا تھاکہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی نے باریاں لگائی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا وہ اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں اور اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ا ٓ گئی تو ایسا ہرگز نہیں ہو گا، حالات آپ کے سامنے ہیں۔ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ سیاسی طور پر ماحول یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ کبھی امریکی انتخابات میں مباحثے کی مثالیں پیش کی جاتی تھیں تو کبھی ایک سکینڈل آنے پہ یورپی حکومتوں کے مستعفی ہونے کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ اور سائیکل پہ دفتر آنا تو اب ایک ایسے ضرب المثل کی شکل اختیار کر چکا ہے کہ ،جو گلی محلوں کے بابوں کی جیسے بچے بالکے کچھ چھیڑ بنا لیتے ہیں، یہ اب پاکستان تحریک انصاف کے لیے مثال ویسے ہی چھیڑ بن چکی ہے۔چن چن کر لوگوں کو ناصرف نوازا گیا بلکہ ایسے سلوک حکومت میں کیا جانے لگا جیسے عوام سے کچھ خاص بدلا لیا جانا مقصود ہو۔ پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، غیر ملکیوں کا پاکستان ملازمتوں کے لیے عازمء سفر ہونا، اوورسیز پاکستانیوں کو پیسے بھیجنا، حکومت پہ سوال اٹھنے پہ کرسی ء اقتدار سے الگ ہو جانا، اور میں غلط کروں تو آپ نے مجھ سے سوال کرنا ہے، اور میں آپ کے سوال سنوں گا، گورنر ہاؤسز، وزیر اعلیٰ کی رہائش گائیں، وزیر اعظم ہاؤس، اور نا جانے کیا عوامی مقامات میں تبدیل کرنے کے نعرے، غرضیکہ کہ کچھ بھی ایسا نہیں تھا جس نے عوام کی توجہ نا سمیٹی ہو اور اب یہی عوام ہیں جو کفِ افسوس مل رہے ہیں کہ ہم نے ان دعوؤں کے کیسے سچ مان لیا۔ ہاں ! ایک اچھی بات ضرور ہوئی کہ عوام کوپچھلے کرپٹ بھی اچھے لگنے لگے۔ اور یہی ہمارے ملک کی بدقسمتی رہی۔ غلط رہے ہوں گے پچھلے حکمران اس بات پہ بحث مقصود ہی نہیں ہے، لیکن کباڑہ تو اس حکومت نے کر دیا کہ جو غلط تھے ان کو ہی عوام کی نظرمیں اچھا بنا دیاگیا ہے۔ اور دعوے ہیں کہ ہم ملک کی قسمت بدل دیں گے۔ تبدیلی سرکار نے ابھی بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے تھے، اس وقت ہی عرض کی تھی کہ یہ سرکار اپنی مدت ختم ہونے پہ یہ واویلا کرتی نظر آئے گی کہ ہمیں ایک موقع اور دیں پھر دیکھیے ہم کیا کر دکھاتے ہیں۔ اور اب ویسی ہی صورتحال ہے کہ حالات ویسے ہی پلٹا کھا رہے ہیں۔ اور بس کچھ دنوں بعد ہی یہ خبریں پڑھنے اور سننے کو ملیں گی کہ ہمیں ایک موقع اور دیں۔ جس طرح سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتا ح کیا تھا تو عرض کی تھی کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے گا اور حکومت کے آخری دنوں میں اس منصوبے کا افتتاح فیس سیونگ کے سوا کچھ نہیں ہے بالکل ایسے ہی گرین لائن بس پراجیکٹ اور رنگ روڈ راولپنڈی جیسے منصوبے ایسے ہیں جو موجودہ تبدیلی سرکار اپنی فیس سیونگ کے لیے استعمال کرئے گی۔ ورنہ جانتی موجودہ حکومت بھی ہے کہ اس میں یہ منصوبہ(راولپنڈی رنگ روڈ) مکمل کرنے کی کتنی صلاحیت اور فنڈز ہیں۔ اس منصوبے میں بھی کس کس نے کیا کیا سمیٹا ایک الگ داستان ہے۔
جس سیاسی رواداری اور اخلاقیات کی، باقی سب کچھ چھوڑ کر، امید کی جا رہی تھی کہ ہو سکتا ہے تبدیلی سرکار اس میں ہی کوئی کارہائے نمایاں سر انجام دے دی گی وہ بھی دیوانے کی بڑھک ہی ثابت ہوئی ہے۔ شہر ِ وفاق کے پڑوس میں کچھ پنچھی تو اڑنے کو ویسے ہی بیتاب ہیں، تبدیلی سرکار کی رہی سہی ناؤ پی پی 206خانیوال جیسے حلقے ڈبو رہے ہیں۔
پی پی 206 کی نشست پاکستان مسلم لیگ نواز کے نشاط خان ڈاہا کی وفات کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ اور اس نشست پہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے رانا محمد سلیم صاحب نے ن لیگ کا مقابلہ کیا تھا اور کم و بیش سینتالیس ہزار ووٹ بھی حاصل کیے تھے۔ لیکن ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے کرتا دھرتا مہان گروؤں نے نجانے کیا سوچا کہ یہاں پارٹی ٹکٹ نشاط ڈاہا مرحوم کی زوجہ کو ہی عنائیت کر دیا۔ جب کہ اس معاملے میں ن لیگ بھلا کہاں پیچھے رہنے والی تھی اس نے بھی ٹکٹ پاکستان تحریک انصاف کے سابق امیدوار رانا سلیم صاحب کو بخشا۔ مسلہ یہاں ن لیگ کا اس لیے نہیں کہ انہیں تو ہم پاکستان تحریک انصاف کے دعوؤں کے ساتھ متفق ہوتے ہوئے غلط سمجھتے ہیں۔ اور وہ جو بھی کریں غلط شمار کیجیے۔ لیکن مسلہ تو تبدیلی سرکار کا تھا۔ اور انہوں نے اپنے امیدوار تک تبدیل کر لیے۔ یہ پھر کہاں گئیں وہ سیاسی روایات جن کا واویلا تبدیلی سرکار کیا کرتی تھی؟ اور کہاں گئے وہ سیاسی رویے جنہیں درست کرنے چلی تھی پاکستان تحریک انصاف کی سرکار؟ یہ کیسی سیاست ہے جو تبدیلی سرکار کر رہی ہے؟ کیوں کہ یہ تو وہی پرانی روش ہے جو ہم سالوں سے دیکھ رہے تھے، تو پھر نیا کیا ہوا؟
جس طرح پاکستان تحریک انصاف کے باقی تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔ اسی طرح تبدیلی سرکار کے سیاسی میدان میں معاملات درست کرنے کی باتیں پانی کا بلبلہ ثابت ہو رہی ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا رہا ہے کہ تبدیلی سرکار کے سرخیل دفاع کرنے پہ بھی مجبور ہیں۔ کیوں کہ ہمارے ہاں یہ سیاسی روایت بھی اب تک تبدیل نہیں ہو سکی کہ پارٹی کے اندر سے مخالفانہ آواز بلند کرنے کی جرات کوئی کر سکے۔ اکبر ایس بابر اور جسٹس(ر) وجہیہ الدین احمد کا حال تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔
بہتی گنگنا تھی، ہاتھ دھو لیے ، اللہ اللہ خیر صلا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.