توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی

ہفتہ 10 جولائی 2021

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

ہماری ہر خواہش پوری ہو، ایسا ممکن نہیں۔ ہمیں زندگی میں ہماری خواہش کے مطابق کچھ بھی میسر نا آئے ایسا بھی قریں از قیاس اس لیے ہے کچھ نا کچھ انسان کو زندگی میں اپنی خواہشوں کے مطابق ربِ کریم کی مہربانی سے مل جاتا ہے۔ لیکن ہم بنیادی طور پر ناشکری کی ہر منزل کا سفر بہت جلدی طے کرتے ہیں۔ ہمیں زندگی میں کسی کامیابی کا سامنا ہوتا ہے تو ہم اگلی کی کوشش میں مصروف ہوتے ہیں۔

ہمیں اللہ ایک نعمت سے نوازتا ہے تو ہمارے دل میں اس کی اہمیت کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور پھر ہم مزید کی خواہش میں دن گزارنے لگتے ہیں۔بنیادی طور پر ہم توقع یہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم کو سب کچھ مل جائے، جو ہمارا دل سوچے۔ ایسا ہونا قدرت کے اُصول و ضوابط کے بنیادی طور پر برعکس ہے۔

(جاری ہے)


کامیابی بنیادی طور پر سب کچھ حاصل کر لینے کا نام کبھی بھی نہیں رہا۔

ہم ہمیشہ اسی غلط فہمی میں زندگی بسر کر دیتے ہیں کہ ہمیں زندگی کی تمام آسائشیں اور آسانیاں میسر آ جائیں۔ اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اسے اپنے لیے کامیابی تصور کرتے ہیں۔ لیکن آپ تمام کامیاب لوگوں کی بائیو گرافی اٹھا کر دیکھ لیجیے ان کو یہ کامیابی نا تو پلیٹ میں رکھ کے دی گئی نا ہی ان کو کامیاب ہونے کے بعد بھی زندگی کی تمام رعنائیاں میسر ہیں۔

آپ ایک لمحہ سوچیے کہ ایک دور میں دنیا کے امیر ترین شخص کا مقام پانے والے بل گیٹس جو ہماری سوچ میں کامیاب ترین انسان کہلائے جاتے ہیں اور کاروباری دنیا میں ایک ایسا نام ہیں کہ پوری دنیا میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا ہے۔ لیکن اس درجہ کامیابی کے بعد بھی انہیں ازدواجی زندگی میں مسائل کا سامنا ہے۔
ہم رشتوں میں سکون چاہتے ہیں۔ اور اسے کامیابی تصور کرتے ہیں۔

جب ایسا ممکن ہو جائے تو ہمارا دل مطمئن نہیں ہوتا وہ کامیابی کا مرکز اچھی جاب یا عہدے کو بنا لیتا ہے، اگر شو مئی قسمت ایسا بھی ہو جائے تو ہم دولت کی ریل پیل کو کامیابی کا نیا زینہ تصور کرتے ہوئے اس پہ چڑھنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔ فرض کیجیے ایسا بھی ممکن ہوگیا۔ تو دولت کی ریل پیل ہونے کے بعد آپ اگر صحت کے مسائل سے دو چار ہو جائیں تو آپ کو واحد کامیابی صحت مند زندگی نظر آئے گی۔

ایک لمحے اس پورے پہیے کو واپس گھمائیں۔ صحت مند زندگی تو آپ سب سے پہلی سیڑھی پہ گزار رہے تھے جب تمام رشتوں میں بھی سکون میسر تھا۔ لیکن آپ کا دل ایک جگہ رکنے کو تیار نہیں ہوتا۔ بیشک زندگی روانی کا ہی نام ہے۔ لیکن دوسری جانب زندگی قناعت پسندی کا بھی نام ہے۔ آپ کے پاس جو میسر ہے اس پہ مطمئن ہو جانا اور اپنی سعی کرتے رہنا کہ معیار زندگی بہتر ہو، اپنی جگہ ایک احسن عمل ہے۔

مسلسل کوشش اشرف المخلوقات کی پہچان ہے۔ لیکن اس مسلسل کوشش میں بھی جو پاس ہو اس کا شکر ادا کرنالازمی ہے۔ لیکن ہم ایسا کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور گلہ اپنی زندگی کی ناکامی کا واویلا کر کے کرتے ہیں۔ حالانکہ جہاں ہم اپنی زندگی کو کامیاب تصور نہیں کر پا رہے ہوتے اسی اندازِ زندگی پہ ہزاروں لوگ مطمئن جی رہے ہوتے ہیں۔
ہماری امیدیں ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔

لیکن بسا اوقات یہی امیدیں ہماری کامیابی میں بڑی رکاوٹ بھی بن جاتی ہیں۔ بے جا امیدیں ہم سے ہماری منزل کو دور کرتے ہوئے دل میں حسد، بغض، ہوس کے پودے پروان چڑھانا شروع کر دیتی ہیں۔ اور ہم غیر محسوس اندا زمیں ان پودوں کی آبیاری کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاشرتی رویے تناور درخت بن جاتے ہیں۔ اور یہیں سے ہماری زندگی کی ریخت کا سفر شروع ہوتا ہے۔

ہم اپنی امیدوں ، حاصل اور موجود میں توازن پیدا کرنے کی سعی کرنے کے بجائے اڑیل گھوڑے کی طرح سر پٹ بھاگے جانے کو کامیابی تصور کر لیتے ہیں۔ توقعات اور امیدیں، دو ایسے ندی کے کنارے ہیں جو کبھی مل نہیں سکتے۔ لیکن ان کے درمیان ایسا ہی توازن برقرار رکھنا ہماری کامیابی ہے جیسے ندی کے دو کنارے کبھی مل نہیں پاتے لیکن کوئی ایک کنارہ بھی دوسرے کے بناء مکمل نہیں ہو پاتا اور ندی بنتی ہی ان دو کناروں سے مل کر ہے۔

زندگی میں پریشانیو ں کی ایک بڑی وجہ ہماری توقعات کا ہماری امیدوں پہ حاوی ہو جانا ہے۔ امید ایک روشنی ہے لیکن بے جا توقعات ایک ایسے گھپ اندھیرے کی مانند ہوتی ہیں جو اس روشنی کو گل کرنے کا باعث بن جاتی ہیں۔
میانہ روی، موجود پہ مطمئن ہونا، کامیابی کی سعی کرنا لیکن توقعات و امیدوں کو خود پہ حاوی نا ہونے دینا ہی بنیادی طور پر کامیاب زندگی کی علامات ہیں۔

ہم زندگی کی کامیابی دوسروں کی کامیابی سے منسلک کیے رہتے ہیں اور اپنی زندگی کو جہنم بنا لیتے ہیں۔ ہم دوسروں کی کامیابی پہ خلوصِ دل سے ان کو سراہنے کے ساتھ اپنی سی سعی کرنا اپنی عادت بنا لیں تو نا صرف معاشرے میں ایک مثبت روش پروان چڑھنا شروع ہو جائے بلکہ ہماری ذات میں بھی مثبت تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جائیں۔ بطور مجموعی یہ رویہ کہ فلاں کہ پاس یہ کیوں ہے اور میرے پاس کیوں نہیں ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔

ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ ہماری کوشش ہمیں بھی وہی مقام دلا سکتی ہے۔ لیکن توقعات باندھ لینا کہ وہ توقعات ہمیں حسد میں مبتلا کر دیں ہماری ذات کو پستی میں دھکیلنے کا باعث بن جاتی ہیں۔ ہمارے رویے میں منفی تبدیلی نا صرف ہم سے کامیابی کو دور کر دیتی ہے بلکہ ہم سے جڑی معاشرے کی دیگر اکائیاں بھی مسائل کا شکار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ نتیجتاً خاندانی مسائل، کاروباری الجھنیں، نفسیاتی عارضے بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں، اور ان کا بڑھنا معاشرے کی بھی تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔


جہاں کوشش رک جائے وہاں زندگی ایسی ساکت جھیل کی مانند ہو جاتی ہے جہاں کائی جمنے سے بدبو پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس کوشش میں اگر منفی رویے حاوی ہو جائیں تو ہم چاہ کر بھی زندگی میں کامیابی سے دور ہو جاتے ہیں۔ زندگی کی کامیابی یہی ہے کہ ہم توقعات و امیدوں کو مشعل راہ ضرور بنائیں۔ لیکن یہ کوشش سے پہلے ہی طے نا کر لیں کہ اس کہ ہماری ہر امید ہماری توقع کے مطابق پوری ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :