
روس کیا کر پا رہا ہے۔ ۔۔
اتوار 29 نومبر 2015

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
شام حقیقی معنوں میں اس وقت عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کی بنیاد پر ہی ایک شامی مصنفہ مارام سُسلی(MARAM SUSLI)نے ایک آرٹیکل لکھا جو 20اکتوبر کوNew Eastern Outlookآن لائن میگزین پر شائع ہوا ۔ یاد رہے کہ مارام شام میں غیر ملکی جارحیت کے خلاف لکھنے کی وجہ سے Syrian Girl کے نام سے مشہور ہے۔ مصنفہ نے لکھا کہ شام میں امریکی کاروئیاں دہشت پسند عناصر کا قلع قمع کرنے کے بجائے صرف چہرے تبدیل کرنے کے لیے ہیں۔ بشار الاسد کو ہٹانا امریکہ کا بنیادی مقصد رہا ہے بجائے کسی بھی طرح کے شدت پسند عناصر کو ختم کرنے کے۔ اس کے علاوہ امریکی کاروائیوں کا اہم مقصد اس خطے میں روسی اثر و رسوخ کم کرنا ہے۔ اسی لیے روس کی کاروئیوں پہ امریکہ سیخ پا ہے۔ کیوں کہ اس خطے میں روس کے بڑھتے ہوئے اثر سے امریکی و اسرئیلی مفادات پہ کاری ضرب لگنے کا خدشہ ہے۔ اور امریکہ یہاں اسی انداز میں روس کا عمل دخل کم کرنا چاہتا ہے جیسے سربیا اور کوسووو میں کر چکا ہے۔ مارام کی رپورٹ میں DIA کے سابق چیف MICHAEL FLYNN کے بیان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ امریکہ نے جان بوجھ کر داعش کو شام میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا تا کہ شامی حکومت کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ امریکی واویلا اس لیے بھی اہم ہے کہ روسی کاروائیوں کا نشانہ کم و بیش وہ 10000 باغی بھی بن رہے ہیں جو امریکی تربیت یافتہ بھی ہیں جن کا حوالہ اس رپورٹ میں موجود ہے۔ مزید لکھتی ہیں کہ اس لڑائی میں روس کے زیادہ مفادات اس لیے وابستہ ہیں کہ دہشت پسند عناصر براہ راست روس پہ اثر انداز ہو سکتے ہیں جب کہ امریکی سرزمین تک ان کا پہنچنا نہایت مشکل ہے اس لیے روس نہ صرف شام بلکہ اپنی سر زمین کا تحفظ بھی کر رہا ہے۔ اور اگر امریکہ افغانستان و عراق پہ حملہ اپنے تحفظ میں کر سکتا ہے تو شامی حکومت کا ساتھ روسی کرتا دھرتا بھی اسی لیے دے رہے ہیں۔ امریکہ کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ شدت پسندوں کو شام و عراق تک محدود رکھا جائے تا کہ وہ امریکی سر زمین کا سوچ ہی نہ سکیں۔ لیکن روس اس لیے ان کامکمل قلع قمع کرنے میں ہی دلچسپی رکھتا ہے کیوں کہ وہ براہ راست اس کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ روس اپنی تمام کاروایئوں کی منظر کشی Russia Today نامی فورم پر کر رہا ہے جسے ٹیکنالوجی کی دنیا میںRT کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب کہ امریکی کاروائیوں کے بارے میں شاذ و ناذر ہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ امریکہ کی جانبداری پہ اس لیے بھی سوال اٹھ رہا ہے کیوں کہ امریکہ صرف بشار الاسد کو ہٹانے کے لیے ایسے عناصر کی بھی مدد کر رہا ہے جو شدت پسندی پھیلانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ Aleppo میں موجود ایرانی فوجی بھی نیٹو اتحادیوں کے لیے اور امریکہ کے لیے بھی درد سر بنے ہوئے ہیں۔
بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے بہت سے جمہوری طریقے ہو سکتے ہیں۔ اگر اس کے طرظِ حکمرانی سے مُسلم اُمہ کو نقصان ہو رہا ہے تو تمام اسلامی ممالک کو مل کر اس پہ دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ اقتدار جمہوری طریقے سے منتقل کر دے یا شامی عوام کو اس بات کا حق دیا جائے کہ وہ پرُ امن طریقے سے اقتدار کسی اور کو منتقل کر سکیں اور اس سارے عمل میں تمام اسلامی ممالک ، اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر اس عمل کی شفافیت کا مشاہدہ کریں۔اس تنازعے کا خاتمہ پوری عالمی برادری کی زیر نگرانی منصفانہ انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔ جن میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بشار الاسد کسی بھی طرح سے اثر انداز نہ ہو سکے اور لوگوں کو فیصلہ کرنے کی آزادی ہو۔ یہ ہرگز بھی حل نہیں ہے کہ ایسے شدت پسند عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی جائے جو مستقبل میں کسی اور ملک کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن جائیں۔ جیسے طالبان ابھرے جو کبھی امریکہ کے منظور نظر رہے۔ امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے دنیا کے کسی بھی خطے میں بارود برسانا شروع کر دیتا ہے لیکن ہم نہ جانے کس دنیا کے باسی ہیں کہ دوسروں کی کٹھ پتلیاں بن کر اپنی تاریخ کا قلع قمع کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ اگر امریکی حکمرانوں کو ان کی آنے والی نسل اپنی دھرتی کے محافظوں کے طور پہ یاد رکھے گی تو ہماری آنے والی نسل ہم کو اغیار کے ہاتھوں میں ناچنے والی پتلیوں کے طور پہ یاد رکھے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.