کتب بینی۔۔۔۔پیدا کہیں بہار کے امکاں ھوئے تو ہیں !!!

پیر 1 فروری 2021

Syed Waqas Jafri

سید وقاص جعفری

سماجی رابطوں کے صفحات کی ورق گردانی کے دوران ایک خوبصورت شعر پڑھنے کو ملا
لفظوں کی یہ مہک یہ نشہ ٹوٹنے کو ہے
یہ آخری صدی ھے کتابوں کے عشق کی
بلاشبہ کتاب دنیا سے کبھی بھی ناپید تو نہ ھوگی البتہ اس کی موجودہ شکل،حجم اور فارمیٹ میں گوناگوں تبدیلیاں آرہی ہیں ۔ممکن ھے ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک میں ان تبدیلیوں کی رفتار قدرے سست ھو مگر ترقی یافتہ ممالک نے مطالعہ و تحقیق کا بڑا حصہ سکرین پر منتقل کردیا ھے ۔

ای ریڈر،ای بک ،آن لائن لائبریری اور بہت کچھ۔۔۔۔۔گذشتہ روز لاھور سے شائع ھونے والے خواتین کے ایک دینی میگزین نے مجھے مطلع کیا کہ وہ اپنی اشاعت کو کاغذ سے کمپیوٹر پر منتقل کررھے ہیں ۔صرف ایک جریدے پہ کیا موقوف ،پوری دنیا کے نامور ،موثر ،تاریخی رسائل ،اخبار،انسائکلوپیڈیا اکیسویں صدی کی ان دو دہائیوں میں یا تو اپنی اشاعت بند کر گئے ہیں یا پھر ڈیجیٹل میڈیا کا جامہ زیب تن کر چکے ہیں۔

(جاری ہے)

علم کےحصول کے لئے دستیاب نوع بہ نوع ذرائع کے باوجود مطالعہ اور کتاب ،حصول علم کا ابتدائی زینہ اور اھم ترین  ذریعہ قرار پاتا ھے۔
چودہ صدیاں قبل علمبرداران توحید نے قلم وقرطاس سے ناآشنا خطہ عرب میں علمی انقلاب کی بنیادیں استوار کردی تھیں۔مگر یہ بات کسی المیہ سے کم نہیں کہ 'اقرا' کے انقلاب آفریں پیغام سے انسانیت کو حیات نو بخشنے والی اسی تہذیب کے موجودہ وارثوں کے پاس ناخواندگی اور جہالت کے جزیرےسب سے بڑھ کر پائے جاتے ہیں ۔

پاکستان اپنے جغرافیہ،محل وقوع،تاریخ،ارتکاز نوجوانان(youth bulge) کے لحاظ سے بہت خوش قسمت واقع ھوا ھے ،اس لحاظ سے ھمیں کتب کی اشاعت،دستیابی،محبت ،تقسیم اور مطالعہ میں صف اول میں نہ سہی ،کہیں درمیان میں تو ھونا ہی چاہییے تھا۔
اس پھیکے ،بےرنگ موسم میں ایسے افراد اور اداروں کا دم غنیمت ھے جن کے وجود سے کتاب اور مطالعہ کا کلچر زندہ ھے ۔

یہ خوشی کی بات ھے کہ کتب میلوں کی روایت فروغ پارہی ھے ۔اچھی کتاب خریدنے کے ساتھ ساتھ پڑھی بھی جارہی ھے۔ کرونا کی وبا کے دوران کچھ اچھی کتابوں کو پڑھنے کی گنجائش نے اس دھیمی خواھش کو پھر سے دھکانے کی کوشش کی ھے ۔گذشتہ دنوں دارارقم کے شعبہ تحقیق وترقی نے اپنے اسٹاف ممبرزکو ایک منفرد اور خوبصورت انداز میں کتاب خوانی کی طرف متوجہ کیا۔

ھر فرد نے اپنے مزاج،ذوق اور سہولت کے تناظر میں کتاب کا انتخاب خودکیا ۔شرط یہ رکھی گئی کہ ایک ماہ بعد حاصل مطالعہ کو باقی افراد کے ساتھ شئیر کیا جائے گا۔ھر ممبر کو دس منٹ دیے گئے کہ وہ ملٹی میڈیا کے ذریعہ اپنے دوستوں کو آگاھی دے کہ یہ کتاب کیونکر میری نگہ انتخاب میں آئ !!! اس کتاب کا مرکزی خیال کیا ھے؟ اور مطالعہ کی اس پوری مشق کا حاصل وصول کیا ھے ۔

۔۔۔۔
میرے لیے پوری مجلس ہی خوشگوار حیرت کا ساماں لیے ھوئے تھی ۔دو گھنٹے سے زائد کی یہ سرگرمی علم،حوصلے اور ابلاغ کی نت نئی جہتوں کو اجاگر کررہی تھی ۔سب سے خوبصورت بات یہ تھی یہ سرگرمی سب کے لئے  مطالعہ کی  راھیں مزید کشادہ اور روشن کرنے کا باعث تھی۔مضامین کا اک تنوع تھا ،جو کتابوں کے ذریعہ اپنا تعارف آپ کرارھا تھا ۔ان کتب میں
پیر کامل (عمیرہ احمد)،
عشق کا عین (علیم الحق حقی),
پاکستان،ایک پیاز دوروٹیاں(عنایت اللہ)،
کامیابی ھے منتظر(رضوان اللہ خان)،
بانو قدسیہ۔

۔ایک عہد،ایک دبستان
 Reconstruction of Religious Thought in Islam (Allama Iqbal)
 Forty Rules of Love (Elif Shafak)
 Sadequain,Anatomy of a Mural
 Lost Islamic History (Firas Alkhateeb)
 The Secret (Rhonda Bryne)
 شامل تھیں۔
 اس عہد وبا میں مطالعہ کے فروغ کی کچھ اور خبریں بھی کم اھم نہیں ۔دو ماہ قبل خواتین اور طالبات کے ایک گروپ نے مدعو کیا کہ وہ فن مطالعہ پر ایک ورکشاپ کروانا چاہتی ہیں ۔ھمارے دوست عاطف مرزاباقاعدگی سے ھر ماہ لاھور مال روڈ کے ایک علمی مرکز پر نوجوانوں کو نئی کتابوں کا تعارف کرارہے ھوتے ہیں ۔

وزیر اعظم کی طرف سے نوجوانوں کے لئے مجوزہ کتب کی خواھش  سے احساس ھوتا ھے کہ قیادت ایک حد تک مطالعہ کے ضروریات کا ادراک کررہی ھے۔کچھ عرصہ قبل نیٹ پر فیس بک کے بانی مارک زوکربرگ کی جانب سے تجویز کردہ کتب کی فہرست دیکھنے کا اتفاق ھوا جس میں معیشت ،سماجیات،بزنس اور پولیٹکل سائنس کے ساتھ ساتھ 'مقدمہ ابن خلدون' اور افلاطون کی 'جمہوریہ' جیسی سدابہار کلاسک کتب شامل تھیں۔

لاھور کے اشاعتی اداروں میں فکشن ھاؤس اور جمہوری پبلی کیشنزنے عالمی ادب کے بہت اچھے شہہ پاروں کے تراجم اردودان قارئین کے لئے فراھم کیے ہیں۔جہلم  بک کارنر نے بہت تھوڑے عرصہ میں نہ صرف معیاری کتب کی اشاعت میں اپنا نام منوایا ھے بلکہ کتابوں کے تعارف اور تشہیر کے لئے سوشل میڈیا کو استعمال کرکے اپنے ھمعصر اوراپنے سے عمررسیدہ اداروں پر واضح سبقت حاصل کرلی ھے۔


سوشل،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کرنٹ افیئرزکے پروگرامز نے لطف کلام  اور خوش سماعتی کا بھرم بیچ چوراہے پھوڑ دیا ھے ۔ ان پروگرامات کی یکسانیت نے بھی عوام کے  سیاست گریز رجحانات کوتقویت دینے میں اپنا کردار ادا کیا ھے ۔روزانہ شائع ھونے والے کالمز میں 80 فیصد، سیاست کی پہلے سے پامال زمینوں کی جگالی کر رھے ھوتے ہیں ۔عامر  ھاشم خاکوانی اور گنتی کے چند اور کالم نویس ھمارے شکریہ کے حقدار ہیں جواچھی،نئی کتب کے تعارف کے ذریعہ قارئین کو ادب عالیہ (sublime literature) سے جوڑے ھوئے ہیں۔


معروف انگریزی نثر نگار فرانسس بیکن کے مطابق "کچھ کتابیں چکھی جاتی ہیں،کچھ کو نگلا جاتا ھے،جبکہ کم ہی کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو رگ وپے کو محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں سرایت کر جائیں"اردو کے نامور ادیب مختار مسعود  کا یہ کہنا بالکل  درست ھے کہ "رزق ہی نہیں کچھ کتابیں بھی ایسی ھوتی ہیں جن کے پڑھنے سے پرواز میں کوتاہی آجاتی ھے"   بلاشبہ کتابوں کی پہچان ضروری ھے ،مگر یہ کتابوں سے رہ ورسم آشنائی کے بغیر ممکن نہیں۔

داستان امیر حمزہ اور طلسم ھوش ربا کے راستے آپ کبھی نہ کبھی مستنصر حسین تارڑ اور اشفاق احمد  تک پہنچ ہی جائیں گے ۔حالی و حفیظ کی انگلی تھامے آپ فیض وفراز اور غالب و اقبال کی راہ پا سکتے ہیں،مگر یہ منزل  'کتاب' اور 'صاحبان کتاب' سے محبت کے بغیر ہاتھ آنے والی نہیں 
 سیاحت کاجنہیں ہے شوق ، پھرتےہیں وہ شہروں میں
کتب بینی ہے سیر اپنی، کتابیں ہیں چمن اپنا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :