
پارلیمنٹ لاجز کے راز افشاء ہونے کے بعد !
اتوار 2 مارچ 2014

سید ذکر اللہ حسنی
جنابِ دستی کے انکشاف کے بعدہی قوم کے سامنے یہ حقیقت آنا تھی کہ جس پارلیمنٹ کے بہت سے ارکان پانچ وقت نمازی ہونے کے ساتھ ساتھ تہجد گزار بھی ہیں انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق اسی پارلیمنٹ کا تقریباً ایک تہائی حصہ اخلاقیات کی حد سے بھی نیچے زندگی گزاررہا ہے۔
(جاری ہے)
قوم کو اب پتا چلا ہے کہ مشرف کانام نہاد حقوق نسواں بل پارلیمنٹ سے کیوں منظور ہوجاتا ہے؟ یہ بھی معلوم ہوا کہ ملک میں کسی رکن پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہوجانے پر کئی گھنٹے بحث کرنے والی قومی اسمبلی کے ارکان گھر گھر میں بے حیائی کا طوفان پہنچنے اور شہر شہر سرعام عزتیں لٹنے پر بھی خاموش کیوں ہیں؟ ہر مغربی بے ہودہ ”ڈے“ کو قومی قرار دینے کیلئے ارکان پارلیمنٹ اور میڈیا کیوں بے تاب نظر آتا ہے؟ قوم کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ہر اہم معاملہ میں ان کیمرہ بریفنگ لینے والے ارکان پارلیمنٹ پرائیویٹ اور سرکاری یونیورسٹیوں وکالجز کی سالانہ تقریبات کے نام پر ہونے والے ”کنسرٹس“ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرکے وہاں جوان بچیوں کے انڈین لچر وفحش گانوں پرڈانس سے کیوں محظوظ ہوتے ہیں؟ان تقریبات کے موقع پر ان جوان طالبات سے بیک سٹیج جو کچھ ہوتا ہے ہمارا قلم اور یہ صفحات اس کی تفصیلات کے متحمل نہیں ہوسکتے!جمشید دستی کے بارے میں ہم اتنا جانتے ہیں کہ وہ جنوبی پنجاب کے غریب لوگوں کا نمائندہ ہے اور ہم نے اس شخص کو اپنے شہر بھی دیکھا تو چلتے چلتے نماز کا وقت ہونے پر ایک ہوٹل کے نل سے وضو کرکے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا۔
اس لئے نیک لوگوں سے سنا ہے کہ جو شخص نمازی ہو اس کی گواہی دینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ لہٰذا جمشید دستی نے کروڑوں لوگوں کی ترجمانی کی ہے جو اپنے نمائندوں سے ایسی توقع نہیں رکھتے۔انہوں نے جس نقطے کی جانب جس قانون کے تحت توجہ دلائی ہے قانون کو اسی طرح حرکت میں آکر آئین ساز اسمبلی سے آغاز کرکے ملک بھر میں اپنی رٹ بحال کرنی چاہئے۔ مجھے حیرت کا جھٹکا تو اس بات پر بھی لگا کہ9.0میں گائے کے پیشاب کرنے پر بھی تمام الیکٹرانک میڈیا پر لائیو اظہار خیال کرنے والی اپنے اس عمل میں یکتا”لندن سرکار“ دستی کے اس کارنامے پر تاحال خاموش ہے۔اس پر کئی لوگ انہیں مشکوک سمجھ رہے ہیں۔ حکومتی ایم این اے میاں عبدالمنان نے ایک بار ہمیں بتایا تھا کہ پارلیمنٹ لاجز میں باہر ہی سے نہیں ارکان پارلیمنٹ کی ”خدمت“کیلئے لاجز میں رہائش پذیر ”ارکان“بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ بلکہ انہوں نے ماضی کی ایسی خدمتگاروں کے نام بتاتے ہوئے کچھ نام”فر فر“لے دئیے تھے۔ہم سمجھتے ہیں جس طرح کوئی ذہنی بیمار شخص داڑھی رکھ لے اور وہ کسی برائی کا ارتکاب کرلے تو لفظ ”مولوی“ کا سہارا لے کر علماء دین اور دین اسلام پرسیکولر اور لبرل لوگ سخت جملے کستے ہیں اور نعوذ بااللہ دین اسلام کو ریاست کے قوانین کیلئے ناقابل عمل تک ہونے کی باتیں شروع کردیتے ہیں۔ جبکہ وہ معاملہ فرد واحد کا ہوتا ہے اس میں دین کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔اسی طرح کئی لوگ ارکان پارلیمنٹ کا لفظ کلی طور پر استعمال کرنے کو برا کہہ رہے ہیں ان سے کسی حد تک اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ سب ایسے ہیں جیسا کہ ہم نے ابتداً بھی عرض کیا مگر یہاں تو ڈھکی چھپی بات ہی کوئی نہیں ۔ پارلیمنٹ لاجز میں عام لوگ نہیں رہتے وہاں تو رہتے ہی ارکان پارلیمنٹ ہیں اس لئے وہاں جو برائی کے ثبوت مل رہے ہیں وہ اس جگہ رہائش پذیر ہونے والوں کے ہی ہوسکتے ہیں۔ شریف اور نیک ارکان پارلیمنٹ کو ایسے لوگوں کے دفاع کی بجائے تمام ارکان پارلیمنٹ کے ”استحقاق“ کو برقرار رکھنے کیلئے ڈوپ ٹیسٹ کروانا چاہئے اور جو بھی غیر اخلاقی سرگرمی میں ملوث ثابت ہوجائے اس کے خلاف آئین کے مطابق کارروائی کی جائے۔ اگر مقننہ اپنے اوپر آئین نافذ کرکے دکھا دے تو شائد طالبان اور ان کے تمام حامیوں کو وزیرستان آپریشن میں آئین کے نفاذ کا موجودہ طریقہ سمجھ آجائے۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سید ذکر اللہ حسنی کے کالمز
-
پنجاب میں ماحولیات میں ماخولیات
منگل 11 جنوری 2022
-
مولانا شیرانی کا ایک اور اختلافی چھکا
جمعرات 24 دسمبر 2020
-
مسلم لیگ ن پنجاب کی تنظیم سازی۔۔فیصل آباد سے شیر علی گروپ ناک آوٴٹ
جمعرات 23 جولائی 2020
-
روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم پر دنیا بھر میں احتجاج!
اتوار 17 ستمبر 2017
-
یمن پر پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا محتاط رویہ!
پیر 6 اپریل 2015
-
مدارس کا شکوہ!
منگل 18 مارچ 2014
-
پارلیمنٹ لاجز کے راز افشاء ہونے کے بعد !
اتوار 2 مارچ 2014
-
آئین پاکستان کا باغی کون؟ طالبان سے مذاکرات میں نئی بحث کا آغاز !
اتوار 9 فروری 2014
سید ذکر اللہ حسنی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.