
مولانا شیرانی کا ایک اور اختلافی چھکا
جمعرات 24 دسمبر 2020

سید ذکر اللہ حسنی
اس وقت علامہ شیرانی سے ہماری لمبی نشست ہوئی جس میں انہوں نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے بلوچستان سے سی پیک کے روٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ آئندہ سیاست سے کنارہ اختیار کرکے کوئی بھی سیاسی عہدہ قبول نہ کرنے اور آئندہ زندگی بلوچستان میں یونیورسٹی بنا کر تعلیم و تحقیق میں صرف کرنے کا اعلان کیا تھا۔
(جاری ہے)
انہیں بلوچستان میں مقامی تنظیمی معاملات پر تحفظات تھے۔ سی پیک پر اگلے ہی روز مولانا فضل الرحمن سے سوال کیا تو انہوں نے صحافیوں کو سی پیک روٹ کے معائنہ کی دعوت دے کر جواب دے دیا۔
گزشتہ چند دنوں سے علامہ شیرانی کا اسرائیل پر عام دینی حلقے اور جے یو آئی کے مؤقف سے ہٹ کر انفرادی طور پر نرم گوشہ سامنےآیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی و قادیانی میڈیا نے انہیں اپنے ہاں نمایاں جگہ دی ہے۔ دوسری اہم بات انہوں نے جے یو آئی کے انٹرنل الیکشنز پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور امیر جے یو آئی و اپوزیشن جماعتوں کے بحالی جمہوریت اتحاد (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی ذات پر شدید تنقید کرتے ہوئے پارٹی سے بغاوت کر دی ہے۔ تقریباً یہی کیفیت جے یو آئی کے سابق مرکزی ترجمان حافظ حسین احمد کی ہے۔ جنہوں نے نواز شریف کی تقریر سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے خلاف بیانات دیے اور عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انہوں نے بھی کچھ عرصہ قبل ہمیں ایک انٹرویو میں واضح بتایا تھا کہ وہ پیدائشی جمیعت کے ہاں۔ ایم ایم اے کی سیٹ پر قومی اسمبلی سے استعفوں کے معاملہ پر بھی جماعتی مؤقف سے الگ استعفیٰ دینے پر غلطی ہوئی تھی۔ تاہم اب وہ ایک بار پھر جماعتی مؤقف کے برخلاف گفتگو کرنے پر حکومتی چینلز میں مقبول ہو چکے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ رائے قائم کرنا ہر سیاسی کارکن کا حق ہے۔ جبکہ جے یو آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں میں عہدیداروں کا انتخاب ڈائریکٹ کارکن کے ذریعے کرنے کا رواج نہیں۔ پی ٹی آئی سمیت ن لیگ، پی پی میں بھی نامزدگیاں چلتی ہیں۔ جماعت اسلامی میں کچھ بہتر طریقہ ہے۔ ورنہ اکثر سیاسی جماعتیں کارکن کا وزن جماعتوں کی ممبرشپ رسیدیں بیچنے کے حساب سے تولتی ہیں۔
لگ تو ایسے ہی رہا ہے کہ علامہ شیرانی جے یو آئی شیرانی بنانے کیلیے ابتدائی کام کررہے ہیں جو بلوچستان میں جے یو آئی نظریاتی کی تشکیل والی صورتحال سے دوچار ہے۔ ان کے پی ڈی ایم کی تحریک کے دوران اچانک انکشافات نے خود ان پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
کیا شیرانی صاحب مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں جے یوآئی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی، بلوچستان کی صوبائی جماعت یا ملک بھر میں اپنے چاہنے والوں کے ذریعے ایک نئی جے یو آئی بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟؟
کیا علامہ شیرانی حافظ حسین احمد بلوچستان کی جماعت پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کر سکیں گے؟؟
کیا یہ دونوں رہنما مولانا فضل الرحمن کی قیادت پر جے یو آئی کی ملک بھر کی تنظیمات کے اعتماد کو حاصل کر سکیں گے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب اگر جلد مل گئے تو ممکن ہے واقعی کوئی تبدیلی نظر آئے مگر جے یو آئی کے سنجیدہ حلقوں میں سے تا حال مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد صاحب کے بیانات پر فی الحال کار انہیں غیر سنجیدہ لیا جارہا ہے۔
باقی جے یو آئی کے 24 دسمبر کو بلائے گئے مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے بعد معاملات بالکل واضح ہو جائیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس معاملے پر تنظیم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دو دن انتظار کے بعد ایک دبنگ انٹرویو میں یر سوال کا جواب دے دیا ہے تاہم پارٹی کے حتمی فیصلے کیلیے سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کو سپریم ادارہ قرار دیتے ہوئے 24 دسمبر کے اجلاس کا انتظار کرنے کا ہی مشورہ دیا ہے۔ دوسری جانب مرکزی رہنماؤں نے پورے ادب و احترام سے منحرف رہنماؤں کے پارٹی مخالف بیانات پر سخت ردعمل دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حافظ حسین احمد، علامہ شیرانی و دیگر منحرفین کے خلاف جے یو آئی ف کی مرکزی شوریٰ دستوری کارروائی کرتے ہوئے سخت ایکشن لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید ذکر اللہ حسنی کے کالمز
-
پنجاب میں ماحولیات میں ماخولیات
منگل 11 جنوری 2022
-
مولانا شیرانی کا ایک اور اختلافی چھکا
جمعرات 24 دسمبر 2020
-
مسلم لیگ ن پنجاب کی تنظیم سازی۔۔فیصل آباد سے شیر علی گروپ ناک آوٴٹ
جمعرات 23 جولائی 2020
-
روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم پر دنیا بھر میں احتجاج!
اتوار 17 ستمبر 2017
-
یمن پر پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا محتاط رویہ!
پیر 6 اپریل 2015
-
مدارس کا شکوہ!
منگل 18 مارچ 2014
-
پارلیمنٹ لاجز کے راز افشاء ہونے کے بعد !
اتوار 2 مارچ 2014
-
آئین پاکستان کا باغی کون؟ طالبان سے مذاکرات میں نئی بحث کا آغاز !
اتوار 9 فروری 2014
سید ذکر اللہ حسنی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.