مولانا شیرانی کا ایک اور اختلافی چھکا

جمعرات 24 دسمبر 2020

Syed Zikar Allah Hasni

سید ذکر اللہ حسنی

فروری 2017 میں ایک ہی ہفتے میں جے یوآئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور جے یو آئی بلوچستان کے اہم رہنما و اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی بلوچستان اسمبلی سے ممبرصوبائی اسمبلی حاجی گل محمد دمڑ کی وفات پر یہاں مقیم ان کے صاحبزادوں سے تعزیت کرنے فیصل آباد آئے۔
اس وقت علامہ شیرانی سے ہماری لمبی نشست ہوئی جس میں انہوں نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے بلوچستان سے سی پیک کے روٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

جبکہ آئندہ سیاست سے کنارہ اختیار کرکے کوئی بھی سیاسی عہدہ قبول نہ کرنے اور آئندہ زندگی بلوچستان میں یونیورسٹی بنا کر تعلیم و تحقیق میں صرف کرنے کا اعلان کیا تھا۔

(جاری ہے)

انہیں بلوچستان میں مقامی تنظیمی معاملات پر تحفظات تھے۔ سی پیک پر اگلے ہی روز مولانا فضل الرحمن سے سوال کیا تو انہوں نے صحافیوں کو سی پیک روٹ کے معائنہ کی دعوت دے کر جواب دے دیا۔


گزشتہ چند دنوں سے علامہ شیرانی کا اسرائیل پر عام دینی حلقے اور جے یو آئی کے مؤقف سے ہٹ کر انفرادی طور پر نرم گوشہ سامنےآیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی و قادیانی میڈیا نے انہیں اپنے ہاں نمایاں جگہ دی ہے۔ دوسری اہم بات انہوں نے جے یو آئی کے انٹرنل الیکشنز پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور امیر جے یو آئی و اپوزیشن جماعتوں کے بحالی جمہوریت اتحاد (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی ذات پر شدید تنقید کرتے ہوئے پارٹی سے بغاوت کر دی ہے۔

تقریباً یہی کیفیت جے یو آئی کے سابق مرکزی ترجمان حافظ حسین احمد کی ہے۔ جنہوں نے نواز شریف کی تقریر سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے خلاف بیانات دیے اور عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انہوں نے بھی کچھ عرصہ قبل ہمیں ایک انٹرویو میں واضح بتایا تھا کہ وہ پیدائشی جمیعت کے ہاں۔ ایم ایم اے کی سیٹ پر قومی اسمبلی سے استعفوں کے معاملہ پر بھی جماعتی مؤقف سے الگ استعفیٰ دینے پر غلطی ہوئی تھی۔

تاہم اب وہ ایک بار پھر جماعتی مؤقف کے برخلاف گفتگو کرنے پر حکومتی چینلز میں مقبول ہو چکے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ رائے قائم کرنا ہر سیاسی کارکن کا حق ہے۔ جبکہ جے یو آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں میں عہدیداروں کا انتخاب ڈائریکٹ کارکن کے ذریعے کرنے کا رواج نہیں۔ پی ٹی آئی سمیت ن لیگ، پی پی میں بھی نامزدگیاں چلتی ہیں۔ جماعت اسلامی میں کچھ بہتر طریقہ ہے۔

ورنہ اکثر سیاسی جماعتیں کارکن کا وزن جماعتوں کی ممبرشپ رسیدیں بیچنے کے حساب سے تولتی ہیں۔
لگ تو ایسے ہی رہا ہے کہ علامہ شیرانی جے یو آئی شیرانی بنانے کیلیے ابتدائی کام کررہے ہیں  جو بلوچستان میں جے یو آئی نظریاتی کی تشکیل والی صورتحال سے دوچار ہے۔ ان کے پی ڈی ایم کی تحریک کے دوران اچانک انکشافات نے خود ان پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔


کیا شیرانی صاحب مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں جے یوآئی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی، بلوچستان کی صوبائی جماعت یا ملک بھر میں اپنے چاہنے والوں کے ذریعے ایک نئی جے یو آئی بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟؟
کیا علامہ شیرانی حافظ حسین احمد بلوچستان کی جماعت پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کر سکیں گے؟؟
کیا یہ دونوں رہنما مولانا فضل الرحمن کی قیادت پر جے یو آئی کی ملک بھر کی تنظیمات کے اعتماد کو حاصل کر سکیں گے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب اگر جلد مل گئے تو ممکن ہے واقعی کوئی تبدیلی نظر آئے مگر جے یو آئی کے سنجیدہ حلقوں میں سے تا حال مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد صاحب کے بیانات پر فی الحال کار انہیں غیر سنجیدہ لیا جارہا ہے۔


باقی جے یو آئی کے 24 دسمبر کو بلائے گئے مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے بعد معاملات بالکل واضح ہو جائیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس معاملے پر تنظیم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دو دن انتظار کے بعد ایک دبنگ انٹرویو میں یر سوال کا جواب دے دیا ہے تاہم پارٹی کے حتمی فیصلے کیلیے سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کو سپریم ادارہ قرار دیتے ہوئے 24 دسمبر کے اجلاس کا انتظار کرنے کا ہی مشورہ دیا ہے۔ دوسری جانب مرکزی رہنماؤں نے پورے ادب و احترام سے منحرف رہنماؤں کے پارٹی مخالف بیانات پر سخت ردعمل دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حافظ حسین احمد، علامہ شیرانی و دیگر منحرفین کے خلاف جے یو آئی ف کی مرکزی شوریٰ دستوری کارروائی کرتے ہوئے سخت ایکشن لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :