
پنجاب میں ماحولیات میں ماخولیات
منگل 11 جنوری 2022

سید ذکر اللہ حسنی
اس موسمیاتی گھن چکر میں پنجاب کا محکمہ موسمیات بھی عدالتی کھچائی کے بعد متحرک نظر آتا ہے اور اس کے افسران و ماتحت عملہ کو ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے کی بجائے عدالتی معاملات میں صفائی دینے اور افسران بالا کی خوشنودی حاصل کرنے کی فکر ہوتی ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے اکتوبر،نومبر میں ماحولیاتی آلودگی بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس بار لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کے گوشوارے میں بھی جگہ پا چکا ہے۔
(جاری ہے)
ہیوی پبلک ٹرانسپورٹ اور عام ٹریفک کا دھواں، فیکٹریوں کی چمنیوں سے بغیر پراسیس باہر نکلنے والا دھواں، بھٹوں کی چمنیوں سمیت کوڑے کرکٹ اور فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے کے نتیجے میں پیدا شدہ دھواں سموگ پیدا کرتا ہے۔ مختلف طرح کی زہریلی گیسوں اور فضا میں موجود گرد کی آمیزش سے کیمیکل پراسیس ہوتا ہے اور زہریلی سموگ بن جاتی ہے جو آنکھوں اور سانس کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔
فیصل آباد سمیت پنجاب بھر میں سموگ شروع ہوتی ہے تو سب سے پہلے بچوں کو سکولوں سے چھٹیاں دینے کی بات کی جاتی ہے۔ پھر چند بھٹوں اور فیکٹریوں کو جرمانے کیے جاتے ہیں، چند روز سڑکوں پر ضلعی انتظامیہ اور محکمہ ماحولیات کی ٹیمیں ٹریفک اہلکاروں کے ہمراہ شہر کے معروف چوراہوں پر کاغذی کارروائی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اور پرنٹ الیکٹرانک میڈیا پر صوبائی حکومت کے پبلک ریلیشنز آفیسر خبریں جاری کر دیتے ہیں۔ پھر باقاعدہ سردی شروع ہوتے ہی سموگ کا اصل باعث بننے والے معاملات بھلا دیے جاتے ہیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ سموگ کا باعث بننے والی چمنیوں کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے فلٹرز و آلات جو حکومت تجویز کرے اور متعلقہ فیکٹریاں وہ لگوائیں۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی افسر پروٹیکٹڈ فیکٹری یا چھوٹے یونٹس کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو سرکار اس کے خلاف تادیبی کارروائی کرے۔ صرف سموگ سموگ کرنے کی بجائے دیکھا جائے تو پنجاب میں سب سے زیادہ آلودگی دنیا میں ممنوع قرار دیے گئے بیڈ فورڈ ٹرک، پرانی ہیوی وہیکلز، فیکٹریوں کی پرانی بسوں، کھڈے زدہ سڑکوں سے اٹھنے والی مٹی کی دھول، کوڑا کرکٹ کو آگ لگانے،ٹائر جلانے، شہروں میں فلٹریشن کے بغیر ناقص ایندھن کی وجہ سے پیدا سیاہ دھویں، گندم اور دھان کی فصلوں کو آگ لگانے سے وجود میں آ رہی ہے۔ مگر محکمہ ماحولیات ان چیزوں کے حقیقی تدارک کے بجائے صرف جرمانے اور چالان تک ہی محدود رہتا ہے۔ کبھی محکمہ ماحولیات نے ممنوع قرار دیے گئے ٹرکوں، فیکٹریوں کی بسوں پبلک ٹرانسپورٹس کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے ادارے کے افسران کا چالان نہیں کیا جن کی کلیئرنس کے باوجود بھی وہ گاڑی سب سے زیادہ دھواں چھوڑ رہی ہوتی ہے۔ کبھی بنتی سڑک کے ٹھیکیدار یا متعلقہ محکمہ کے افسر کو پانی چھڑکنے کا نہیں کہا جاتا۔ کبھی چھوٹی فیکٹریوں جنہوں نے حکومتی ہدایات پر چمنیوں میں مجوزہ آلات لگائے ہوتے ہیں کی حوصلہ افزائی یا ان کو ناجائز کیا جرمانہ واپس نہیں کیا۔ کبھی کسی فیکٹری کی دھواں چھوڑتی کھٹارہ بس بند نہیں کروائی۔
غرض سچی بات یہ ہے کہ جب تک محکمہ ماحولیات عوام سے چالان کی حد تک ماخول کرتا رہے گا ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ انہیں حقیقی طور پر اصل حقائق سامنے رکھ کر اصلاح احوال کرنا ہوگی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید ذکر اللہ حسنی کے کالمز
-
پنجاب میں ماحولیات میں ماخولیات
منگل 11 جنوری 2022
-
مولانا شیرانی کا ایک اور اختلافی چھکا
جمعرات 24 دسمبر 2020
-
مسلم لیگ ن پنجاب کی تنظیم سازی۔۔فیصل آباد سے شیر علی گروپ ناک آوٴٹ
جمعرات 23 جولائی 2020
-
روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم پر دنیا بھر میں احتجاج!
اتوار 17 ستمبر 2017
-
یمن پر پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا محتاط رویہ!
پیر 6 اپریل 2015
-
مدارس کا شکوہ!
منگل 18 مارچ 2014
-
پارلیمنٹ لاجز کے راز افشاء ہونے کے بعد !
اتوار 2 مارچ 2014
-
آئین پاکستان کا باغی کون؟ طالبان سے مذاکرات میں نئی بحث کا آغاز !
اتوار 9 فروری 2014
سید ذکر اللہ حسنی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.