پنجاب میں ماحولیات میں ماخولیات

منگل 11 جنوری 2022

Syed Zikar Allah Hasni

سید ذکر اللہ حسنی

اس میں دو رائے نہیں کہ دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ جن کے نتیجے میں دنیا کے درجہ حرارت میں روز بروز اضافہ ہو رہا۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ سرد علاقوں میں بھی گرمی کے موسم کا دورانیہ بڑھ رہا ہے جبکہ گرم علاقوں کا درجہ حرارت بھی زیادہ ہو گیا ہے۔دسمبر اور جنوری شدید سردی سے پہچانے جاتے ہیں مگر 2021 کے دسمبر تک سردی برائے نام ہی رہی۔


اس موسمیاتی گھن چکر میں پنجاب کا محکمہ موسمیات بھی عدالتی کھچائی کے بعد متحرک نظر آتا ہے اور اس کے افسران و ماتحت عملہ کو ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے کی بجائے عدالتی معاملات میں صفائی دینے اور افسران بالا کی خوشنودی حاصل کرنے کی فکر ہوتی ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے اکتوبر،نومبر میں ماحولیاتی آلودگی بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس بار لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کے گوشوارے میں بھی جگہ پا چکا ہے۔

(جاری ہے)


ہیوی پبلک ٹرانسپورٹ اور عام ٹریفک کا دھواں، فیکٹریوں کی چمنیوں سے بغیر پراسیس باہر نکلنے والا دھواں، بھٹوں کی چمنیوں سمیت کوڑے کرکٹ اور فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے کے نتیجے میں پیدا شدہ دھواں سموگ پیدا کرتا ہے۔ مختلف طرح کی زہریلی گیسوں اور فضا میں موجود گرد کی آمیزش سے کیمیکل پراسیس ہوتا ہے اور زہریلی سموگ بن جاتی ہے جو آنکھوں اور سانس کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔


فیصل آباد سمیت پنجاب بھر میں سموگ شروع ہوتی ہے تو سب سے پہلے بچوں کو سکولوں سے چھٹیاں دینے کی بات کی جاتی ہے۔ پھر چند بھٹوں اور فیکٹریوں کو جرمانے کیے جاتے ہیں، چند روز سڑکوں پر ضلعی انتظامیہ اور محکمہ ماحولیات کی ٹیمیں ٹریفک اہلکاروں کے ہمراہ شہر کے معروف چوراہوں پر کاغذی کارروائی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اور پرنٹ الیکٹرانک میڈیا پر صوبائی حکومت کے پبلک ریلیشنز آفیسر خبریں جاری کر دیتے ہیں۔

پھر باقاعدہ سردی شروع ہوتے ہی سموگ کا اصل باعث بننے والے معاملات بھلا دیے جاتے ہیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ سموگ کا باعث بننے والی چمنیوں کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے فلٹرز و آلات جو حکومت تجویز کرے اور متعلقہ فیکٹریاں وہ لگوائیں۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی افسر پروٹیکٹڈ فیکٹری یا چھوٹے یونٹس کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو سرکار اس کے خلاف تادیبی کارروائی کرے۔

صرف سموگ سموگ کرنے کی بجائے دیکھا جائے تو پنجاب میں سب سے زیادہ آلودگی دنیا میں ممنوع قرار دیے گئے بیڈ فورڈ ٹرک، پرانی ہیوی وہیکلز، فیکٹریوں کی پرانی بسوں، کھڈے زدہ سڑکوں سے اٹھنے والی مٹی کی دھول، کوڑا کرکٹ کو آگ لگانے،ٹائر جلانے، شہروں میں فلٹریشن کے بغیر ناقص ایندھن کی وجہ سے پیدا سیاہ دھویں، گندم اور دھان کی فصلوں کو آگ لگانے سے وجود میں آ رہی ہے۔

مگر محکمہ ماحولیات ان چیزوں کے حقیقی تدارک کے بجائے صرف جرمانے اور چالان تک ہی محدود رہتا ہے۔ کبھی محکمہ ماحولیات نے ممنوع قرار دیے گئے ٹرکوں، فیکٹریوں کی بسوں پبلک ٹرانسپورٹس کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے ادارے کے افسران کا چالان نہیں کیا جن کی کلیئرنس کے باوجود بھی وہ گاڑی سب سے زیادہ دھواں چھوڑ رہی ہوتی ہے۔ کبھی بنتی سڑک کے ٹھیکیدار یا متعلقہ محکمہ کے افسر کو پانی چھڑکنے کا نہیں کہا جاتا۔

کبھی چھوٹی فیکٹریوں جنہوں نے حکومتی ہدایات پر چمنیوں میں مجوزہ آلات لگائے ہوتے ہیں کی حوصلہ افزائی یا ان کو ناجائز کیا جرمانہ واپس نہیں کیا۔ کبھی کسی فیکٹری کی دھواں چھوڑتی کھٹارہ بس بند نہیں کروائی۔
غرض سچی بات یہ ہے کہ جب تک محکمہ ماحولیات عوام سے چالان کی حد تک ماخول کرتا رہے گا ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ انہیں حقیقی طور پر اصل حقائق سامنے رکھ کر اصلاح احوال کرنا ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :