آئین پاکستان کا باغی کون؟ طالبان سے مذاکرات میں نئی بحث کا آغاز !

اتوار 9 فروری 2014

Syed Zikar Allah Hasni

سید ذکر اللہ حسنی

اس وقت پورے ملک کی بالخصوص اور دنیابھر کے پاکستان میں متعین سفیروں کی نظریں بالعموم طالبان اور حکومت کے درمیان ”امن مذاکرات“ پر لگی ہوئی ہیں۔مذاکرات کے آغازسے قبل طالبان اور حکومت کی نمائندہ کمیٹیوں نے اپنے اپنے اہداف اور نکات کی وضاحت کی ہے ۔خوشگوار بات یہ ہے کہ فریقین نے مذاکرات آئین پاکستان کے تحت کرنے پر اتفاق کیاہے۔

جس کے بعد کئی مذاکرات مخالف قوتوں کو خفت کا سامنا ہے جو طالبان کو آئین مخالف قرار دے رہے تھے۔ جب ملک میں شورش ختم کرنے کے بہترین طریقہ ”مذاکرات“ کے مخالفین کو اس میں مزید پیش رفت ہوتی نظر آرہی ہے اور قوم کے عام افرادسمیت پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے ذمہ داروں میں ایک عرصہ کے بعد یکجہتی نظرآئی توخاص ایجنڈے پر غیرملکی ایجنسیز کے پے رول پر کام کرنے والی این جی اوز اوربعض سیاسی جماعتوں کے غیر اہم ارکان ،مذاکراتی کمیٹی کی حکومتی نامزدگی کے بعد سے اسے طالبان کے نفاذ شریعت کے مطالبہ سے ڈرا رہے تھے۔

(جاری ہے)

اسی دوران میڈیا میں موجود بعض مذاکرات مخالف افراد نے دونوں جانب سے ترجیحات واضح ہونے سے قبل ہی نفاذ شریعت کے مطالبے کو ”ہوا“ بنا کر پیش کرنا شروع کردیا۔جس کے بعد ”نفاذِ شریعت “ پر بحث جاری ہے اور ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق اس کی تشریح میں لگا ہوا ہے۔ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز” لفظ نفاذ شریعت “ کی بجائے ”مذاکرات آئین پاکستان“ کے تحت ہونے پر مذاکرات کا حصہ بننے سے معذوری کا اظہار کررہے ہیں جنہیں منانے کیلئے اپنے اور بیگانے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ہم نے اسی موضوع پر طالبان اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں متحرک کردار ادا کرنے والے محمد یوسف شاہ سے رابطہ کیا اور ان سے تازہ ترین صورتحال دریافت کی تو ان کا کہنا تھا کہ حالیہ مذاکرات کے نتیجہ میں فریقین ملک کو امن کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ اسی لئے طالبان اور مولانا عبد العزیز کے نفاذ شریعت کے مطالبہ کے بعد طالبان کی نامزد کمیٹی چند روز میں طالبان سے رابطہ کرکے انہیں اس بات پر قائل کرلے گی کہ مذاکرات آئین پاکستان کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہی ہوں گے اوریہ کہ1973ءء کا متفقہ آئین ہی ملک میں نفاذ شریعت کی دستاویز ہے۔

جس پر عملدرآمد کے مطالبے سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ” نفاذ شریعت یانفاذ آئین پاکستان “ میں فرق نہیں ہے۔ بعض لوگ اس میں فرق پیدا کرکے مذاکرات کی کامیابی میں روکاوٹ ڈال کر ملک کو بدامنی کی فضا میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ وہی لوگ سوچ سکتے ہیں جو کبھی بھی اسلام اور پاکستان کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔متفقہ طور پر قومی اسمبلی سے منظور شدہ آئین پاکستان میں موجود ہے کہ پاکستان کا سپریم لاء قرآن وسنت ہے۔

اس لئے یہ مذاکرات اگر اسی آئین کے تحت ہورہے ہیں تو بادی النظر میں فریقین اس پر متفق ہیں کہ پاکستان کا کوئی قانون قرآن وسنت کے منافی نہیں بن سکتا۔ اس لئے اگر طالبان کی جانب سے پاکستانی متفقہ آئین پر یقین کرلیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ واقعی پاکستان میں جو آئین منظور شدہ ہے اس کے تحت کوئی قانون شریعت کے خلاف نہیں بن سکتا تو یہ پہلے ہی طالبان کے موٴقف کی تائید ہے۔

اب طالبان سمیت جو بھی ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتا ہے اسے موجودہ نافذ شدہ قوانین کو پڑھنا چاہئے اور ان میں سے خلاف شریعت قوانین کی فہرست بناکر سامنے لائی جانی چاہئے ۔جس پر یقینا ایک ٹھوس مطالبہ سامنے آئے گا جس کی تائید شائد ہو لوگ بھی کردیں جو ابھی گھٹے گھٹے انداز میں نفاذ شریعت کے مطالبہ پر تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ دوسری جانب متفقہ آئین کے خلاف بولنے والوں اور نفاذ شریعت کے آئینی حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کا بھی محاسبہ کیا جانا چاہئے۔

متفقہ آئین کے مطابق قرآن وسنت کے نفاذ سے سود، شراب، جواء، قماربازی، دھوکہ دہی، بے ایمانی، جھوٹ، فریب، اختیارات کا ناجائز استعمال، فحاشی وعریانی، بے ہودگی اور خلاف شریعت دیگر سرگرمیوں کی گنجائش نہیں رہتی اور جو لوگ اس میں مبتلاء ہیں وہی لوگ طالبان سے مذاکرات کی مخالفت اور ملک میں آئین پاکستان کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہیں۔

یوسف شاہ کے بقول طالبان کو نفاذ شریعت کے مطالبے اور آئین پاکستان کو سمجھنا چاہئے۔یہی بات طالبان اورمذاکرات کے مخالفین کو سمجھ لینی چاہئے ۔جس کے بعد واضح ہوجائے گا کہ آئین پاکستان کا باغی کون ہیں؟ متفقہ آئین کے نفاذ کی بات کرنے والے یا اس آئین کے نفاذ کی راہ میں روکاوٹ ڈالنے والے!
جے یوآئی کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے رواں ہفتے فیصل آباد میں اچانک آمد کے بعد مصروف وقت گزارا۔

انہوں نے جامعہ عبداللہ بن عباس کے استاذ الحدیث اور دارالعلوم فیصل آباد کے سابق شیخ الحدیث مولانا عبدالکریم شاہ  کی وفات پرپیپلزکالونی پہنچے اور ان کے صاحبزادوں سے تعزیت کا اظہار کیا جبکہ جے یوآئی کے ضلعی جنرل سیکرٹری حاجی محمد رفیق کی وفات پر ان کے صاحبزادوں مسعود احمد،محمد احمدسے نثار کالونی میں حاجی مشتاق احمد کی رہائش گاہ پر تعزیت کا اظہار کیا۔

طالبان کی کمیٹی کے اعلان کے بعد مذاکرات پر فریقین کی آمادگی کے بعد ان کا موٴقف جاننا انتہائی ضروری تھا۔ لہذا معاون سیکرٹری اطلاعات پنجاب محمد یوسف انصاری کی کوششوں سے وہاں صحافیوں سے ملاقات کا اہتمام بھی کرلیا گیا ۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اپنی شناخت ہونے کے باوجودطالبان نے اپنی کمیٹی کے لئے باہرسے نام کیوں لئے ہیں یہ بات غورطلب ہے ۔

عوام اورطالبان کے قابل اعتمادقبائلی جرگہ نظراندازکرکے نہ جانے کیوں کوئی سرپرائزدیاجارہاہے۔انہوں نے اپنی جماعت کی مذاکراتی ٹیم سے علیحدگی کے باوجودخواہش کا اظہار کیا کہ حکومت نے جس سنجیدگی سے کام شروع کیا ہے اسی سنجیدگی سے معاملہ حل بھی ہو۔مفاہمتی عمل متاثراورسبوتاژ نہیں ہوناچاہئے۔امن پوری انسانیت،پاکستان اورقوم کی ضرورت ہے جبکہ دہشت گردی کی جنگ امریکہ اورمغرب کی جنگ ہے جس کے نام پر سویت یونین کے بعد معیشت پرقبضہ امریکہ کا21ویں صدی کاپلان ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :