خطبہ حجة الوداع۔۔۔ انسانیت کا منشورِ اعظم

بدھ 29 جولائی 2020

Tabinda Khalid

تابندہ خالد

حجة الوداع عظمتِ اسلام کا شاندار مظاہرہ ہے۔ تاریخ اس یاد گار خطبے کو First Charter Human Rightsکے نام سے یاد کرتی ہے۔ اس خطبے میں نہایت شاندار اور شائستہ اسلوب میں اسلام انقلاب کو بیان کیا گیا ہے اور رسومِ جاہلیہ کی نفی کی گئی ہے۔ خاتم النبینﷺ نے انسانی زندگی کے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور فکری پہلوؤں کی اصولی تعلیم کو ایجاز و اعجاز سے بیان کیا۔

نبی کریمﷺ نے Islamic World Order کے تحت عالمی انسانی مساوات قائم کرتے ہوئے تقریباً 1لاکھ کے مجمع سے زندگی کے اہم اصولوں کو بیان فرمایا۔ جس میں فرقہ بندی، تعصب، گروہ بندی کی جڑکاٹ دی گئی، حقوق و فرائض کے بارے میں آگاہی دی گئی، قرض کی ادائیگی، عاریتاً چیز کی واپسی، تحفہ وتحائف کے بارے میں رہنمائی فراہم کی گئی، جاہلیت کا سود گرا دیا گیا۔

(جاری ہے)

اسکے علاوہ انتقام در انتقام کی رسم کا خاتمہ، سوسائٹی کے کمزور طبقات، اسلامی مملکت کے شہریوں کی ذمہ داری، مستقبل کے فتنوں سے آگاہی، قرآن و سنت کی پناہ گاہ وغیرہ کو قیامت تک کے لیے واضح انداز میں انسانوں کے لیے پیش کر دیا۔


قارئین! جب ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو اسکے معنی یہ ہیں کہ یہ حقوق الله رب العزت کے دئیے ہوئے ہیں کسی بادشاہ یا کسی مجلس قانون ساز کے نہیں۔ ڈکٹیٹروں کے تسلیم کردہ حقوق کا حال یہ ہے کہ وہ جب چاہیں عطا فرما دیں اور جب چاہیں ہاتھ کھینچ لیں لیکن اسلام میں انسان کے جو حقوق ہیں وہ الله کے عطا کردہ ہیں۔ دنیا کی کوئی مجلس قانون ساز اور دنیا کی کوئی حکومت ان کے اندر ردّ و بدل کرنے کی اتھارٹی نہیں رکھتی۔

ان کو واپس یا منسوخ کرنے کا حق کسی کو نہیں۔ آج سے سولہ سو سال قبل دورِ حاضر کی حقوقِ انسانی کے بارے میں اصطلاحات و نظریات میں ان کانام تک کسی نے سنا نہیں تھا۔ بس تاریکی ہی تاریکی تھی۔ خطبہ حجة الوداع "FIRST PRISM OF HUMAN RIGHTS" ہے۔ بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کے سلسلے میں پہلا سوال سامنے آیا کہ آخر ان حقوق کا جواز کیا ہے؟ کس بنیاد پر انسان کے لیے کچھ حقوق تسلیم کیے جائیں اور تسلیم جکیے بھی جائیں تو کس اتھارٹی کے کہنے پر۔

سب سے بڑا اعتراض یہ ہوا کہ ان حقوق کی (Legal Position) کیا ہے؟ ان حقوق کو قانونی حیثیت دینے اور معاشرے کی منظوری حاصل کرنے کے لیے معاہدہ عمرانی "Social Contract" کا نظریہ پیش کیا گیا اور دعویٰ کیا گیا چونکہ ریاست کا وجود اسی معاہدے کا مرہون منت ہے لیکن اس معاہدے کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟ اسکے بارے میں The Social Contract and Islamic State کے مصنف لکھتے ہیں کہ:
کیا نظریہ معاہدہ عمرانی پورا کا پورا غیر تاریخی ہے؟ کیا یہ سراسر افسانہ ہے؟ ان سوالات کا جواب ہمیشہ اثبات (Positive) میں دیا گیا ہے اور آج تک کسی نے نہیں کہا کہ ”نہیں“ یہ سارا نظریہ اس وقت اور حیرت انگیز بن جاتا ہے جب کہا جاتا ہے کہ یہ تو محض اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود ظن و گمان اسلئے تاریخ ہونے کے باوجود اسکی اپنی پوری تاریخ ہے۔

غیر تاریخ سے ہماری مراد یہ ہے کہ انسان کی پوری سیاسی تاریخ میں ہمیں کوئی ایک واقعہ یا کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس میں ریاست کی تشکیل کے لیے معاہدہ عمرانی کو استعمال کیا گیا ہو۔
سوال یہ ہے کہ جو نظریہ اتنا بے بنیاد دھوکہ اس کی حیثیت ایک افسانہ سے زیادہ نہ ہو اور خود مغرب کے مؤرخ بالاتفاق اسے غیر تاریخی قرار دے چکے ہوں اسے اس قدر اہمیت کیوں دی گئی ہے؟ اور اس کی بنیاد پر تصور حقوق کی پوری عمارت کیوں تعمیر کر لی گئی؟ اس کی وجہ اہلِ مغرب خود بیان کرتے ہیں۔

"Guaius Eze Jiafon" لکھتا ہے کہ: یہ نظریہ 16اور 17 صدی میں اس وقت نمودار ہوا جب سیاسی مفکرین کو معاشرے کے باہمی تعلق کی تعبیر کے لیے ایک ایسے معاہدے کی ضرورت لاحق ہوئی۔ گویا یہ معاہدہ اپنے معاہدہ نظریات کو جواز یا قانونی اساس مہیا کرنے کی ضرورت کے تحت ایجاد کیا گیا ہے“۔
حقوقِ انسانی کا تصور ہمارے لیے کوئی نیا تصور نہیں۔ ہو سکتا ہے دوسرے لوگوں کی نگاہوں میں ان حقوق کی تاریخ United Nations Organization کے چارٹر یا انگلستان کے میگناکارٹا کے عنوان سے ہو۔

مغرب میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا آغاز 5صدی قبل مسیح سے کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اسکا آغاز گیارہویں صدی سے کر کے سیاست کا ناطہ جوڑتے ہیں۔ گویا مغرب کے نزدیک بنیادی انسانی حقوق کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی۔ ہنری مارش لکھتا ہے: ”بڑے بڑے جاگیرداروں کے سامنے ایک منشور کے سوا اسکی کوئی حیثیت نہ تھی“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :