وادی گلوان میں چائنہ بھارت جھڑپ ۔۔۔

بدھ 17 جون 2020

Tabinda Khalid

تابندہ خالد

لداخ میں ایک فلاسفر تھے جنکا نام غلام رسول گلوان تھا ۔انہوں نے ایک ندی کی کھوج لگائی جس پر ندی کا نام گلوان رکھا گیا ۔ لائن آف ایکچوئل کنڑول 4,057 کلو میٹر لمبی لکیر ہے۔اسکے قبضے کو لیکر چائنہ بھارت میں ایک عرصہ سے ٹکراؤ چل رہا ہے۔ 1962 میں بھارت چین سے بُری طرح ہار گیا تھا۔ 1957 تا 2020 یعنی 45 سالوں تک اس سرحدی علاقہ میں کوئی خون خرابہ نہیں ہوا حتیٰ کہ 2017 میں چین اور بھارت کے درمیان بھوٹان کی سرحد ڈوکلام پر 73 دن لمبا ڈیڈ لاک چلا تھا۔

فریقین نے ٹینٹ تک نصب کر لیئے ۔ مگر کانفرنس کے ذریعے امن معاہدہ انجام پا گیا، کہ "بھارت تجاوزات ہٹا لے گا"۔ 1975 سے دونوں ممالک کے درمیان سالانہ فیس آف ہوتاآ رہا ہے، بینرزڈرل ہوتی ہے اور پھر واپسی۔ مگر گزشتہ 42 روز سے چائنہ بھارت سرحدی تناؤ جاری ہے اس کی شروعات 5 مئ سے ہوئی جب پیپلز لبریشن آرمی( چائینیز آرمی) نے سرحد پر بھارت کی غیر معمولی عسکری سرگرمیوں کو نوٹ کرنا شروع کیا کہ بھارت متنازعہ علاقہ پر بلاخوف و خطر سڑک بنا رہا ہے۔

(جاری ہے)

1962 کے بعد سے بھارت نے  اپنے فوجیوں کی تعداد دوگنی کر دی ہے۔ 2016 میں بھارت نے لداخ میں آرمڈ رجمنٹ قائم کی، ائیر بیسز تعمیر کیے ہیں۔اس وقت وہاں تین بریگیڈ موجود ہیں۔ لہذا 5 مئ کے بعد زبردست ٹینشن کے باوجود 10 مرتبہ سمجھوتہ کی بات ہوئی۔ جس کے تحت دونوں افواج کو 5 کلو میٹر پیچھے جانا تھا۔ پوسٹ 1 سے پیچھے ہٹنا تھا۔ لیکن پیر کی رات کو گلوان وادی میں خونی تصادم دیکھنے میں آیا۔

چینی حکام کے مطابق بھارتی فوج اپنا علاقہ چھوڑ کر چین کے علاقہ میں گھس آئی اور اشتعال انگیزی کی۔ جس پر چینی فوج نے بغیر کسی اسلحہ کے، لوہے کے راڈ، کیل والے دستانوں، پتھروں ، ڈنڈوں، مکوں، تھپڑوں سے بھارتی فوج کی ایسی پٹائی کی کہ چھٹی کا دودھ یاد دِلا دیا۔نتیجتاً بھارتی کمانڈنگ آفیسر سمیت کم ازکم 20 فوجی ہلاک ہو گئے ۔انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق یہ تعداد دوگنی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ بھارت کے 34 جوان لاپتہ ہیں۔


قارئین اب صورتحال یہ ہے کہ کمانڈنگ آفیسر امن و امان کے حالات میں بغیر اسلحہ کے مارا جائے تو اس سے بڑا چیلنج بھارت کے لئے اور کیا ہوگا ؟؟؟. اب یہ معاملہ پولیٹیکل ملٹری ڈومین میں آچکا ہے۔ چین نے بیان جاری کیا ہے کہ بھارت ہی حملہ آور ہے مزید برآں واضح دھمکی دی ہے کہ بھارت اپنی پریشانیاں بےجا نہ بڑھائے !ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت دو ایشین جائنٹ آمنے سامنے ہیں۔

کمال مہارت کی ڈپلومیسی ہی اس معاملے کی الجھن کو سلجھن میں بدل سکتی ہے۔
چین کی حکمت عملی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ جو بھی حرکت کرتا ہے بہت سوچ بچار کے بعد کرتا ہے۔ قارئین فرض کریں کہ اگر "لمیٹڈ وار" بھی ہوتی ہے تو نہ صرف ایشیاء بلکہ دنیا پر اسکا اثر پڑےگا۔
چائنہ کی اگر بات کی جائے تو کچھ عرصہ قبل چین پروڈکشن حب بن چکا تھا۔ کورونا کے باعث چین اس وقت انٹرنیشنل آئسولیشن کی حالت میں ہے۔

پہلے پہل چینی حکومت نے عوام کو روپیہ و ریلیف دیا مگر اب بے روزگاری چین میں ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ چین کے خلاف دنیا کا ایک گٹھ جوڑ بنتا جارہا ہے۔ بھارت اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ چین کی پہلے ہی امریکہ کے ساتھ ٹریڈ وار چل رہی ہے ۔جاپان کے ساتھ تعلقات کشیدہ، چین تائیوان کو اپنا حصہ مانتا ہے اور اس میں ایک ملک اور دو سسٹم بالکل  ہانگ کانگ کی مانند لاگو کرنا چاہتا ہے۔

چینی فوج ویت نام میں بھی مداخلت کر رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ چین کو اب پرواہ نہیں رہی کہ حالات کس ڈگر پر جائیں گے کیونکہ اسی نوعیت کے حالات بھارت کے بھی ہیں۔ بھارت میں اندرونی سطح پر تحریکیں چل رہی ہیں۔سٹیزن شپ ایکٹ کے خلاف دھرنے ،ادھر نیپال نے نئے نقشے کی منظوری دے دی ہے، جس میں متنازع علاقے بھی شامل ہیں۔بنگلہ دیش ناراض ، افغان مذاکرات  کی میز سے بھارت کی بے دخلی۔

  لائن آف کنٹرول کے ضمن میں پاکستان سے نزاعات کا لامتناہی سلسلہ۔۔۔  ان سب کے سبب بھارت لڑکھڑا رہا ہے۔!
بھارتی میڈیا عوام کو ہراساں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا کہ پاکستان اور چائنہ ملکر بھارت پر حملہ آور ہونگے۔
منگل کی سہ پہر تک بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور سرکار میں میٹنگ جاری تھی۔ آج صبح علی الاعلان کہا گیا کہ بھارتی فوج کو کھلی چھوٹ دی دی گئی ہے۔

اب کھلی چھوٹ سے کیا مراد ہے ؟؟؟ علم نہیں ! لیکن آج لگ بھگ 2 بجے کے قریب نریندر مودی نے پریس کانفرس کی اور کہا کہ 19 جون کو شام 5 بجے چائنہ بھارت میں وادی گلوان واقع سے متعلق میٹنگ ہوگی۔
لیکن جو بھی ہو قارئین 72 گھنٹے بہت اہم ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بھارت رات کی تاریکی میں کوئی جھوٹی سرجیکل یا ائیر سٹرائیک کے ذریعےاپنی جنتا کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے جو کہ اسکا وطیرہ ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :