
لاک ڈاؤن فرائیڈے۔!!!
منگل 14 اپریل 2020

تابندہ خالد
پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسیز میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ اس کی "خاموش منتقلی" ہے۔ یعنی ایسے کیسیز بھی ریکارڈ ہوئے جن میں علامات کی شدت ذیادہ نہیں تھی- ورلڈ بینک نے انتباہ جاری کیا ہے کہ "پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں کورونا وائرس کے بُرے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں-حالات 40 سال کی بدترین معاشی صورتحال کی جانب بڑھ رہے ہیں"۔ پوری کی پوری دنیا اس وقت ایک کمرۂ امتحان میں ہے۔ یہ آزمائش وابتلاء کی ایک ایسی گھڑی ہے کہ ہر کوئی کورونا کا رونا رو رہا ہے۔سائنسدان کووڈ-19 کی ویکسین کی تیاری کے لیے ایڑھیاں رگڑ رہے ہیں۔ فی الحال معاشرتی و سماجی دوری ہی ایسا احتیاطی قدم ہے جس کو اپنانے کا مشورہ انٹرنیشنل لیول پر دیا جا رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق" متاثرہ شخص سے وائرس والے پانی کے قطرے بذریعہ چھینک اور کھانسی سے فضا میں تحلیل ہو سکتے ہیں۔
ایسے افراد سے کم از کم تین فٹ کا فاصلہ رکھیں"۔
انہی احتیاطی تدابیر کےپیش نظر مسیحی برادری نے ایسٹر کا تہوار انتہائی سادگی سے منایا۔ پوپ فرانسس نے تنہا چرچ میں ایسٹر کی دعا کروائی۔ گزشتہ 2 ہفتوں سے پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کیلئے 4 سے زائد افراد کی نماز جمعہ پر پابندی پر خانہ جنگی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ پاکستانی مسلمان بھائی ایسا رد عمل ظاہر کر رہے تھے کہ جیسے وہ کسی کفرستان میں موجود ہوں۔ ہم نے سینہ بہ سینہ اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ 1947 سے قبل جب تحریک پاکستان نے زور پکڑ ا تو ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی رسومات اذان، اجتماعات حتیٰ کہ نماز جمعہ پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اپنے دینی شعائر نماز جمعہ و خطبہ کی ادائیگی کو یقینی بنانے اور متعصب ہنود کیخلاف مسلمانان ہند سینہ سپر ہو گئےتھے۔ تاریخ میں بڑے سانحات قلمبند کیے گئے۔ لیکن حال ہی میں جمعہ کے روز "مصلحت" کے تحت لاک ڈاؤن کی پابندی کے خلاف مظاہروں کی وجہ سے نہ صرف عالمی سطح پرجگ ہنسائی ہو رہی ہے اسکے علاوہ عامتہ الناس کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ " آذاد اسلامی جمہوریہ پاکستان" میں اب ماضی جیسے نزاعات کی نوبت کیوں پیش آ رہی ہے۔؟!!!
اس پر پیچ مسئلے پر بات کرنے سے پہلے یہی کہنا چاہوں گی کہ سچ تو یہ ہے کہ ہم اخلاقی حدود و قیو د کا خیال رکھتے ہوئے مباحثہ نہیں کر سکتے۔ دوسروں کو کافر اور بھٹکے ہوئے خیال کرنا اور خود کو درویش تصور کرنا ہمارے خمیر میں شامل ہو چکا ہے۔ عصر حاضر میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے والوں کو راہ راست دکھانا، دینی امور پر اصولی تجزیہ پیش کرنا۔۔۔ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔!!! دراصل ہمارے سکالرز نے "اجتہاد" کو خیر باد کہہ دیا ہے یعنی کہ ماڈرن دور کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پیش آمدہ مسائل کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایسا معقول اور سائینٹفک حل عوام کو مہیا کیاجائے تاکہ دین و دنیا کے حسین امتزاج سے مسلمانوں کیلئیے زندگی جامد نہ ہو۔ مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم 2020 میں بھی جہالت کی ظلمتوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے ہیں۔ابھی تازہ تازہ مثال ہے کہ 10اپریل بروز جمعہ جامعہ مسجد حقانی اورنگی ٹاؤن کراچی میں کورونا وائرس کی سنگینی کے حوالے سے جب عوام نے لاک ڈاون احکامات کی دھجیاں بکھیریں ،جواباً لیڈی پولیس آفیسر نے کاروائی کی تو پاکستانی مسلمان بھائیوں نے ان خاتون پر ٹڈی دل لشکر کی مانند یلغار کر دی۔
محکمہ پولیس اسلیئے الرٹ اور کوشاں ہے کہ کہیں پاکستانی عوام اس خونی وباء کی زد میں نہ آ جائیں۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ تو عوام کو" اجتماعی خودکشی" سے بچاتے ہوئے سورہ مائدہ کی آیت: 32 کے تناظر میں عمل درآمد پر کاربند ہے کہ" جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا گویا انسانیت کو قتل کیا ،جس نے ایک انسان کو بچایا گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔"
رسول اللہ ﷺ کے نزدیک بدترین شر "علمائے سو" کا ہے۔ حیف ہے عوام پر کہ جسمانی صحت کے لیے جب ڈاکٹرز کی طرف رجوع کرتے ہیں تو خوب بخیے ادھیڑتے ہیں، اس تحقیق پر اپنے وقت کا ضیاع نہیں کرتے کہ کون اناڑی معالج ہے۔ اسی طرح مستند علماء کی رفاقت کے لیے ریسرچ کیوں نہیں کرتے!!!
ساری کی ساری ذمہ داری علمائے سو پر آتی ہے کہ وہ لوگوں کو کیوں ترغیب دیتے ہیں کہ سخت وباء کے دنوں میں ڈاکٹرز کی ہدایات اور حکومتی احکامات کی حکم عدولی کریں۔ ایسے نام نہاد علماء کو صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابو داود جیسے کلاسک مآخذ پر غورو حوض کرنا چاہیے کہ طاعون کی وباء کے متعلق نبی ﷺ کی کیا سنت ہے؟۔ ڈاکٹرز کی اہمیت اسلام میں اتنی ہے کہ اگر مستند ڈاکٹر کہے کہ آپکو شوگر، ہائی بلڈ پریشر، گردوں کا عارضہ لاحق ہے یا ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ ہے اور آپ نے روزہ نہیں رکھنا تو اسلام کی رو سے آپ نہ رکھیں!!!
کیونکہ اسلام دین فطرت ہے۔ جان بچانے کی خاطر قرآن کریم کی سورت بقرہ: 173، سورت مائدہ:3، سورت الانعام:119، سورت الانعام: 145 میں تو اللہ رب العزت نے حرام کھانے کی رخصت دی ہے۔ شرط یہ ٹھہری کہ بغاوت کا عنصر نہ ہو اور معالج بھی متقی ،عاقل ہو۔ اگر اب ڈاکٹرز کی جماعت کہہ رہی ہے کہ "سماجی فاصلہ" رکھئیے تو اس پر اتنا اظہار تعجب کیوں؟!۔۔۔۔
عوام کے غیض و غضب کی ایک وجہ یہ خدشہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہیں اس عظیم فریضے پر تا حیات پابندی نہ لگ جائے یا امت محمدﷺ نماز جمعہ میں غفلت و کوتاہی نہ برتنے لگے!۔ نہیں ایسا قطعاً نہیں ہے لاک ڈاون کا انحصار حالات پر ہے جیسے ہی یہ وباء معدوم ہوئی زندگی دوبارہ سانس لے گی۔
خدارا کورونا کی افراتفری میں ایک دوسرے کو کافر کہنے سے گریز کریں۔ اگر اللہ کریم کو دنیا اتنی عزیز ہوتی تو وہ کافروں کو دو گھونٹ پانی بھی نہ پینے دیتا۔!!! یہ" صبغتہ اللہ " ہے کہ کافروں کے گھر میں بھی سورج کی کرنیں پہنچتی ہیں اور مسلمانوں کے ہاں بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ نظام ہستی کسی بہت بڑی طاقت کے دست قدرت میں ہے اور انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ کون احسن عمل کرتا ہے ؟ لہذا ان معاملات کو ہاتھ میں لینے سے گریز کریں کیونکہ یہ حکمت اللہ واحد ہی بہتر جانتا ہے۔ اس وقت دنیا کے تمام مذاہب (اسلام، عیسائیت، یہودیت، ہندومت، سکھ ازم، بدھ مت، کنفیوشینزم، شنتو مذہب، تاوازم، کورین،ویتنامی مذاہب، مانچو) اس بحران کی لپیٹ میں ہیں۔ایسے میں اگر کسی مذہب کی جانب سے آواز بلند ہوتی ہے تو وہ "انسانیت" کی آواز ہے۔ ہمیں اس کینہ و تفرقہ کی آتش نمرود کو گلزار کرنا ہوگا۔
پاکستانی شہریوں سے اپیل ہے کہ وقت کی نزاکت کو سمجھیں۔ گلوبل فنانس رینکنگ آف نیشنل ٹیک سٹرینتھ کی 17 جنوری 2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا سب سے آخر والا نمبر(67) ہے۔ اب جبکہ وسائل نہیں ہیں، انتظامیہ کی کارکردگی زیرو ہے، بیشتر آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ، سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت نہیں۔ ایسے میں اگر جگہ جگہ کورونا کے مریض ہوئے تو ڈر ہے کہ سڑکوں پر بیڈز لگانے پڑیں گے، یوں ان مسائل کی ڈور کا سرا پاکستان کے ہاتھ نہ آئے گا۔ وقت کی پکار ہے کہ ہم بد تہذیبی کی بجائے مہذب ہونے کا ثبوت دیں۔ حاکم وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ عوام کو نماز جمعہ کے متعلق اعتماد میں لیں اور جب تک لاک ڈاؤن ہے تب تک کیلیئے ٹی-وی نشریات پر وغط جمعہ کا خاص اہتمام کیا جائے۔
(جاری ہے)
انہی احتیاطی تدابیر کےپیش نظر مسیحی برادری نے ایسٹر کا تہوار انتہائی سادگی سے منایا۔ پوپ فرانسس نے تنہا چرچ میں ایسٹر کی دعا کروائی۔ گزشتہ 2 ہفتوں سے پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کیلئے 4 سے زائد افراد کی نماز جمعہ پر پابندی پر خانہ جنگی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ پاکستانی مسلمان بھائی ایسا رد عمل ظاہر کر رہے تھے کہ جیسے وہ کسی کفرستان میں موجود ہوں۔ ہم نے سینہ بہ سینہ اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ 1947 سے قبل جب تحریک پاکستان نے زور پکڑ ا تو ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی رسومات اذان، اجتماعات حتیٰ کہ نماز جمعہ پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اپنے دینی شعائر نماز جمعہ و خطبہ کی ادائیگی کو یقینی بنانے اور متعصب ہنود کیخلاف مسلمانان ہند سینہ سپر ہو گئےتھے۔ تاریخ میں بڑے سانحات قلمبند کیے گئے۔ لیکن حال ہی میں جمعہ کے روز "مصلحت" کے تحت لاک ڈاؤن کی پابندی کے خلاف مظاہروں کی وجہ سے نہ صرف عالمی سطح پرجگ ہنسائی ہو رہی ہے اسکے علاوہ عامتہ الناس کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ " آذاد اسلامی جمہوریہ پاکستان" میں اب ماضی جیسے نزاعات کی نوبت کیوں پیش آ رہی ہے۔؟!!!
اس پر پیچ مسئلے پر بات کرنے سے پہلے یہی کہنا چاہوں گی کہ سچ تو یہ ہے کہ ہم اخلاقی حدود و قیو د کا خیال رکھتے ہوئے مباحثہ نہیں کر سکتے۔ دوسروں کو کافر اور بھٹکے ہوئے خیال کرنا اور خود کو درویش تصور کرنا ہمارے خمیر میں شامل ہو چکا ہے۔ عصر حاضر میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے والوں کو راہ راست دکھانا، دینی امور پر اصولی تجزیہ پیش کرنا۔۔۔ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔!!! دراصل ہمارے سکالرز نے "اجتہاد" کو خیر باد کہہ دیا ہے یعنی کہ ماڈرن دور کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پیش آمدہ مسائل کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایسا معقول اور سائینٹفک حل عوام کو مہیا کیاجائے تاکہ دین و دنیا کے حسین امتزاج سے مسلمانوں کیلئیے زندگی جامد نہ ہو۔ مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم 2020 میں بھی جہالت کی ظلمتوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے ہیں۔ابھی تازہ تازہ مثال ہے کہ 10اپریل بروز جمعہ جامعہ مسجد حقانی اورنگی ٹاؤن کراچی میں کورونا وائرس کی سنگینی کے حوالے سے جب عوام نے لاک ڈاون احکامات کی دھجیاں بکھیریں ،جواباً لیڈی پولیس آفیسر نے کاروائی کی تو پاکستانی مسلمان بھائیوں نے ان خاتون پر ٹڈی دل لشکر کی مانند یلغار کر دی۔
محکمہ پولیس اسلیئے الرٹ اور کوشاں ہے کہ کہیں پاکستانی عوام اس خونی وباء کی زد میں نہ آ جائیں۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ تو عوام کو" اجتماعی خودکشی" سے بچاتے ہوئے سورہ مائدہ کی آیت: 32 کے تناظر میں عمل درآمد پر کاربند ہے کہ" جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا گویا انسانیت کو قتل کیا ،جس نے ایک انسان کو بچایا گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔"
رسول اللہ ﷺ کے نزدیک بدترین شر "علمائے سو" کا ہے۔ حیف ہے عوام پر کہ جسمانی صحت کے لیے جب ڈاکٹرز کی طرف رجوع کرتے ہیں تو خوب بخیے ادھیڑتے ہیں، اس تحقیق پر اپنے وقت کا ضیاع نہیں کرتے کہ کون اناڑی معالج ہے۔ اسی طرح مستند علماء کی رفاقت کے لیے ریسرچ کیوں نہیں کرتے!!!
ساری کی ساری ذمہ داری علمائے سو پر آتی ہے کہ وہ لوگوں کو کیوں ترغیب دیتے ہیں کہ سخت وباء کے دنوں میں ڈاکٹرز کی ہدایات اور حکومتی احکامات کی حکم عدولی کریں۔ ایسے نام نہاد علماء کو صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابو داود جیسے کلاسک مآخذ پر غورو حوض کرنا چاہیے کہ طاعون کی وباء کے متعلق نبی ﷺ کی کیا سنت ہے؟۔ ڈاکٹرز کی اہمیت اسلام میں اتنی ہے کہ اگر مستند ڈاکٹر کہے کہ آپکو شوگر، ہائی بلڈ پریشر، گردوں کا عارضہ لاحق ہے یا ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ ہے اور آپ نے روزہ نہیں رکھنا تو اسلام کی رو سے آپ نہ رکھیں!!!
کیونکہ اسلام دین فطرت ہے۔ جان بچانے کی خاطر قرآن کریم کی سورت بقرہ: 173، سورت مائدہ:3، سورت الانعام:119، سورت الانعام: 145 میں تو اللہ رب العزت نے حرام کھانے کی رخصت دی ہے۔ شرط یہ ٹھہری کہ بغاوت کا عنصر نہ ہو اور معالج بھی متقی ،عاقل ہو۔ اگر اب ڈاکٹرز کی جماعت کہہ رہی ہے کہ "سماجی فاصلہ" رکھئیے تو اس پر اتنا اظہار تعجب کیوں؟!۔۔۔۔
عوام کے غیض و غضب کی ایک وجہ یہ خدشہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہیں اس عظیم فریضے پر تا حیات پابندی نہ لگ جائے یا امت محمدﷺ نماز جمعہ میں غفلت و کوتاہی نہ برتنے لگے!۔ نہیں ایسا قطعاً نہیں ہے لاک ڈاون کا انحصار حالات پر ہے جیسے ہی یہ وباء معدوم ہوئی زندگی دوبارہ سانس لے گی۔
خدارا کورونا کی افراتفری میں ایک دوسرے کو کافر کہنے سے گریز کریں۔ اگر اللہ کریم کو دنیا اتنی عزیز ہوتی تو وہ کافروں کو دو گھونٹ پانی بھی نہ پینے دیتا۔!!! یہ" صبغتہ اللہ " ہے کہ کافروں کے گھر میں بھی سورج کی کرنیں پہنچتی ہیں اور مسلمانوں کے ہاں بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ نظام ہستی کسی بہت بڑی طاقت کے دست قدرت میں ہے اور انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ کون احسن عمل کرتا ہے ؟ لہذا ان معاملات کو ہاتھ میں لینے سے گریز کریں کیونکہ یہ حکمت اللہ واحد ہی بہتر جانتا ہے۔ اس وقت دنیا کے تمام مذاہب (اسلام، عیسائیت، یہودیت، ہندومت، سکھ ازم، بدھ مت، کنفیوشینزم، شنتو مذہب، تاوازم، کورین،ویتنامی مذاہب، مانچو) اس بحران کی لپیٹ میں ہیں۔ایسے میں اگر کسی مذہب کی جانب سے آواز بلند ہوتی ہے تو وہ "انسانیت" کی آواز ہے۔ ہمیں اس کینہ و تفرقہ کی آتش نمرود کو گلزار کرنا ہوگا۔
پاکستانی شہریوں سے اپیل ہے کہ وقت کی نزاکت کو سمجھیں۔ گلوبل فنانس رینکنگ آف نیشنل ٹیک سٹرینتھ کی 17 جنوری 2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا سب سے آخر والا نمبر(67) ہے۔ اب جبکہ وسائل نہیں ہیں، انتظامیہ کی کارکردگی زیرو ہے، بیشتر آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ، سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت نہیں۔ ایسے میں اگر جگہ جگہ کورونا کے مریض ہوئے تو ڈر ہے کہ سڑکوں پر بیڈز لگانے پڑیں گے، یوں ان مسائل کی ڈور کا سرا پاکستان کے ہاتھ نہ آئے گا۔ وقت کی پکار ہے کہ ہم بد تہذیبی کی بجائے مہذب ہونے کا ثبوت دیں۔ حاکم وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ عوام کو نماز جمعہ کے متعلق اعتماد میں لیں اور جب تک لاک ڈاؤن ہے تب تک کیلیئے ٹی-وی نشریات پر وغط جمعہ کا خاص اہتمام کیا جائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.