کورونا وائرس اور بائیولوجیکل وار

اتوار 29 مارچ 2020

Tabinda Khalid

تابندہ خالد

11مارچ 2020ء کو عالمی ادارہ صحت (WHO) نے کورونا وائرس کو عالمی وباء قرار دے دیا۔ پہلا کیس 17نومبر 2019ء کو ریکارڈ کیا گیا۔ تاحال اسکا وائرس کش علاج دریافت نہیں ہو سکا جس کے پیشِ نظر اس موذی وائرس کی روک تھام کے لیے دنیا بھر سے کرفیو، تالابندی، قرنطینہ مراکز، عبادت گاہوں (مساجد، چرچ، سینا گاگ، گرو دوارہ، مندر، مقدس مقامات) پارکس، سیاحتی مقامات کو مقفل کر دینے جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

کورونا وائرس سے متعلق مریضوں اور اموات کا ریکارڈ جمع کرنے والی ویب سائٹ میٹرز ڈاٹ انفو کے مطابق متاثرہ مریضوں کی مجموعی تعداد 664,941 تک پہنچ گئی ہے۔ اٹلی میں تو لاشوں کے انبار لگ گئے ہیں۔ اطالوی نرسوں کا کہنا ہے کہ اب وہ مزید لاشیں گننے سے عاجز ہیں۔ امریکہ میں ایک لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

کورونا وائرس کا سبب چین کا شہر ووہان بتایا جارہا ہے جہاں ممنوعہ گوشت کی فروخت کی جاتی تھی۔


امریکہ کورونا وائرس کو چائینیز وائرس ثابت کر رہا ہے اور رپورٹس مرتب کی جا رہی ہیں کہ کورونا وائرس خود کوئی نیا وائرس نہیں ہے۔ یہ ایک مخلوق سے دوسری مخلوق میں داخل ہوگیا ہے۔ سارس (2002) نامی بیماری کی وجہ بھی کورونا وائرس ہی تھا۔ اسکا نقطہء آغاز چمگادڑوں سے ہوا اور سیوٹ کیٹ سے ہوتا ہوا انسانوں تک پہنچا۔ بہرحال اس وباء نے عالمی سطح پر معاشرتی معاشی، سیاسی صورتحال کو مضطرب کر رکھا ہے۔


کورونا وائرس سے عالمی طاقتوں کا توازن یکسر تبدیل ہونے جارہا ہے اور اسی اثناء میں ممالک کی ایک دوسرے کو زیر کرنے کے نت نئے منصوبوں کے متعلق افواہوں نے جنم لیا ہے کہ کورونا وائرس بائیولوجیکل اینڈ کیمیکل وار ہے جو کہ ایلومیناٹی، فری میسنری، یہودی زائیونسٹ کا ایجنڈا ہے۔ بائیولوجیکل وار کی کاروائی کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے۔ قارئین! اس قسم کی اسٹریٹیجی تو زمانہ قدیم سے مستعمل ہے۔

مثلاً 23ہجری میں زہر آلود تلواروں، خنجروں کا استعمال کیا گیا۔ علاوہ ازیں رومی و یونانی تاریخوں میں درج ہے کہ مردار کنوؤں میں پھینک دئیے جاتے اور پانی کو زہر بنا دیا جاتا۔ اٹھارہویں صدی میں چیچک کے جراثیم انگلینڈ کی فورسز نے امریکیوں میں پھیلائے۔ 1979ء میں روس سے حادثاتی طور پر اینتھراکس کے جرثومے ہو امیں تحلیل ہوگئے۔ جس سے 66افراد جان کی بازی ہار گئے۔

21ویں صدی کے آغاز میں کچھ ایسی ہی تکنیک فصلوں پر بھی کی گئی تاکہ فصلوں میں زہریلے کیمیکلز سرایت کر جائیں اور پھر اناج، پھل وغیرہ سے خوراک کا حصہ بنتے ہوئے وہ ذہنوں کو مفلوج کر سکیں اور جسمانی صلاحیتوں کو کم کرنے میں تیر بہ ہدف ثابت ہو۔ اس بات کی مزید تشریح و توضیع کے لیے "Jeffery Smith" کی کتاب Seed of Deception ملاحظہء ہو کہ جس میں وہ رقمطراز ہیں کہ ”بائیولوجیکل وار کی خاص بات یہ ہے کہ جب آپ یہ خوراک کھاتے ہیں تو اس منتخب شدہ بیماری کی علامات یکدم ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ کئی سال لگ سکتے ہیں“۔

یعنی آرٹیفیشل وائرس کی تیاری بھی جنگ کا حصہ ہے۔ ایسی جنگ جس میں فوجی فوائد کے بجائے معاشی اور سیاسی فوائد حاصل کیے جاسکیں۔
بائیولوجیکل وار فےئر میں لیبارٹریز وائرس و بیکٹیریا میں جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے ایسی طاقتور بیماری تشکیل دی جاتی ہے کہ تشکیل دینے والا ہی اس بیماری کا تریاق کر سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جو ملک کیمیکل، بائیولوجیکل، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہوگا وہی ملک سپر پاور کہلائے گا۔

فوجیوں کی تعداد یا ہتھیاروں کی تعداد سے نہیں! جو اس سپر پاور کو تسلیم کرے گا صرف اسی کو ویکسین دی جائے گی اور اسی ملک کو قحط زدہ بنجر زمینوں کے لیے فرٹیلائزر(کھاد) فراہم کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ چائینہ جو کہ عالمی طاقتوں کی فہرست میں اوّل کی دوڑ میں ہے کے بارے میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ووہان سے اس بیماری کا آغاز ہوا ہے لہٰذا چائینہ سے اپنی تجارتی سرگرمیاں ختم کر لینی چاہئیں۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ چائینہ نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے یورپ، اٹلی، سپین، فرانس، بلگاریہ، یونان، سربیا، پاکستان اور دیگر ممالک میں اپنے ڈاکٹرز، ماسک، دستانے اور دیگر طبی سامان بھجوارہا ہے تاکہ دنیا اس کو فراموش نہ کر دے اور اسکے سپرپاور بننے میں ممالک کی سپورٹ کم نہ ہو۔
اسی کے ساتھ ہی لوگوں میں بے چینی کی کیفیت پائی جارہی ہے کہ مارچ کے اختتام پر بارش، ژالہ باری، زلزلوں کا امکان ہارپ ٹیکنالوجی کے ذریعے ممکن بنایا جارہا ہے یعنی کہ کورونا کو زندہ رکھنے کے لیے موسم گرم نہیں ہونے دیا جارہا۔

پاکستان میں حالات بہت گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ حالات جو بھی ہوں ہمیں کورونا سے ڈرنا نہیں ہے بلکہ اس سے لڑنا ہے۔ اس کا پھیلاؤ زیادہ ہے تو لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت اسکا علاج کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :