
"مہنگی ادویات، فائدہ کس کو..."
اتوار 27 ستمبر 2020

طاہر ایوب جنجوعہ
ویسے کیا ذہانت پائی ہے وزیر موصوف نے اور کیا خوب صورت حل نکالا ہے, کبھی کبھی تو اپنی قسمت پر رشک آتا ہے کہ کیسے کیسے عظیم حکمرانوں کی رعیت ہمیں نصیب ہوئی۔ کہ جن کا فلسفہ حکمرانی دیکھ کر ہر کوئی عش عش کر اٹھے۔ مطلب کہ اگر آپ کی بات کوئی نہیں مانتا, تو اگلے کی مان لو, کوئی سرکش آپ کی حکم عدولی کرتا ہے تو جو کچھ وہ چاہتا ہے اسے دے کر اپنا تعمیل ارشاد کروا لو۔ یعنی اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو یہ کہ آپ کے طے کردہ ریٹ پر پٹرول نہیں ملتا تو پمپ والوں کے مطالبات مان کر اسے نایاب ہونے سے بچا لیا جائے۔
(جاری ہے)
یہاں کارل مارکس کا ایک قول بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے, وہ کہتا ہے؛ " وہ لوگ جنہوں نے سردی گرمی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو, اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو, وہ عام آدمی کی قیادت کے اہل نہیں" اب یہ کس قدر افسوس ناک المیہ ہے کہ 73 سالوں سے "الا ماشاءاللہ" ہمارے ہاں حق حکمرانی صرف انہی لوگوں کو تفویض کیا گیا, جو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے۔ آپ تمام تاریخ پاکستان کے ادوار کو کھنگال کر دیکھ لیں, ایک عام معمولی حکومتی عہدے دار سے لے کر وزیر,مشیر صدر, وزیر اعظم تک سبھی ایلیٹ کلاس کے ہاتھ ہی اس سارے نظم و نسق کی باگ ڈور نظر آئے گی۔ ان سب میں شاید ہی کوئی ایسا ملے جو بھوک افلاس زدہ نچلے طبقے سے ہو کر اوپر گیا ہو۔ بدقسمتی سے لگژری بیڈ رومز سے نکل کر فرنشڈ سرکاری دفاتر اور محلات میں منتقل ہونے والی یہ 10 فیصد اپر کلاس, جن میں جاگیردار, وڈیرے, صنعت کار, سرمایہ دار, بڑے بڑے بیوروکریٹ, سرکاری عہدیدار, جج, جرنیل سبھی شامل ہیں, 90 فیصد مڈل اور لوئر کلاس خالی ہاتھ طبقے کے سیاہ و سفید کے مالک ہمیشہ سے رہے, اور ابھی تک ہیں۔ یہ سونے کے نوالوں پر پلنے والے ایک غریب دیہاڑی دار کی نظر میں روٹی کے ایک ٹکڑے کی اہمیت و ضرورت کو کیسے سمجھ سکتے تھے۔ یہ ٹھنڈے ٹھار بند کمروں میں نرم و گداز صوفوں پر براجمان ہو کر چلچلاتی دھوپ میں کمائے ہوئے چند سو روپوں کی قدر و قیمت سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں۔ یا انہیں اس بات سے کیا غرض کہ کوئی بھوک بیماری یا کسمپرسی سے مرے یا جیئے۔۔ انہیں تو یقیناً اپنے گھر کاج, کاروبار, زمینوں, فیکٹریوں, کارخانوں اور تجارتی مفادات کی فکر ہو گی۔ اور بلاشبہ یہ تو لفظوں کی کان کنی سے سونا نکالنا جانتے ہیں۔ جب یہی حکومت میں ہوں گے تو اپنے مفادات کا کیسے تحفظ نہیں کریں گے۔
کاش کہ ان وزیر موصوف کو معلوم ہوتا کہ دوائی اگر بلیک میں ملتی ہے, تو اسے خریدنے والا کون ہے؟ اس کا خریدار یقیناً مال دار یا اپر کلاس ہی ہے, اب غریب کے بس کی تو بات تو نہیں کہ وہ 100 روپے والی دوائی دو ہزار یا تین ہزار میں خرید سکے۔ غریب تو دوائی کو اس کی اصل قیمت پر خریدنے کے لیے بھی پتا نہیں کیا کیا پاپڑ بیلتا ہے۔ یہاں تک کہ کبھی ادھار لیتا ہے, یا کہیں سود پر گھر کی کوئی چیز گروی رکھواتا ہے, یا گھر کی کوئی چیز بیچتا ہے۔ اس معاشی حالت میں کہ وہ روٹی سے مجبور ہو وہ بلیک میں یہ سوغات کیسے خرید سکتا ہے؟
اب ایک لحاظ سے یہ فائدہ تو دوائی کو بلیک میں خریدنے والے کو ہی ہوا کہ اسے پہلے جو دوائی مہنگی ملتی تھی, اب حکومت کی مہربانی سے اسے لیگل طور پر بھی ملے گی اور پہلے سے کچھ سستی بھی۔ پہلے اسے بلیک میں خریدنے کے لیے جگہ جگہ دھکے کھانے پڑتے تھے, کیونکہ ہر کوئی بلیک والی چیز نہیں بیچتا, اب اسے آسانی سے اوپن مارکیٹ سے مل جایا کرے گی۔ اس سب کہانی میں غریب کا فائدہ کہاں ہے؟ وہ تو پہلے بھی سسک کر مر رہا تھا اب بھی مرے گا۔
اسی معاملے پر وزیر موصوف ایک دلیل یہ بھی لائے کہ چونکہ راء میٹیریلز مہنگا ہونے سے فارما مینپکچررز انڈسٹریز کی کاسٹ بڑھ گئی ہے, اس لیے ان ادویات کو مہنگا کرنا ضروری تھا۔ تو اس کے لیے آخر میں جان کی امان پاتے ہوئے ایک ادنیٰ سی گزارش کا ارادہ ہے کہ حضور اگر آپ کو فارما کمپنیز کی طرف سے ڈاکٹرز کو پیش کی جانے والے مراعات اور عنایات آج تک نظر نہیں آئیں, ڈاکٹرز کے ٹھاٹ باٹ اور آئے روز کے فارن ٹوورز بارے آپ آج تک بے خبر رہے ہیں, تو ایک غیر جانبدار اجلے کردار کے حامل محققین کا ایک پورڈ بنائیں جو فارما انڈسٹری کی پروڈکشن لاگت پر کام کرے, اور اس بارے صحیح, مستند اور اصل حقائق سامنے لائے, اور بتائے کہ راء میٹیرلز مہنگا ہونے سے کتنا کچھ فرق پڑا۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گیں۔ لیکن یہ اس صورت میں کہ اگر آپ اس ملک کے غریب کا درد سمجھتے ہیں۔ اور اس ملک میں حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ بصورت دیگر افراتفری, مار دھاڑ, اور معاشی بدامنی کا عفریت تو پہلے ہی اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
طاہر ایوب جنجوعہ کے کالمز
-
" اقوام متحدہ کے 75 برس' کیا کھویا پایا "
منگل 20 اکتوبر 2020
-
"16 اکتوبر'عجب ایک سانحہ گزرا ہے"
جمعہ 16 اکتوبر 2020
-
"نابینا افراد، حکومتی توجہ کے منتظر"
پیر 12 اکتوبر 2020
-
"وقف املاک ایکٹ میں علماء کرام کے کردار کو فراموش نہ کیا جائے"
جمعہ 2 اکتوبر 2020
-
"مہنگی ادویات، فائدہ کس کو..."
اتوار 27 ستمبر 2020
-
"عالمی یوم جمہوریت اور اجتماعیت کا اسلامی تصور"
پیر 14 ستمبر 2020
-
"کیپٹل ازم اور ہمارے مسائل"
اتوار 13 ستمبر 2020
-
عالمی یوم "اقراء" اور ہم
منگل 8 ستمبر 2020
طاہر ایوب جنجوعہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.