"وقف املاک ایکٹ میں علماء کرام کے کردار کو فراموش نہ کیا جائے"

جمعہ 2 اکتوبر 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

 پچھلے دنوں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ہدایات پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین شدید کشمکش کے باوجود حکومت نے اینٹی منی لانڈرنگ، انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترامیم اور اسلام آباد وقف املاک بل 2020 کثرت رائے سے منظور کرالیا۔ جس پر تمام دینی طبقات نہ صرف شدید تحفظات کا شکار ہیں۔ بلکہ بہت سے مقتدر مذہبی حلقوں نے تو اسے ملکی آزادی و خود مختاری کے سودے اور ملک کو عالمی طاقتوں کی غلامی میں دینے کے مترادف بھی قرار دیا ہے۔

ان مذہبی حلقوں کا موقف یہ ہے کہ یہ بل مدارس اور مساجد کے خلاف شروع کی گئی عالمی مہم کا حصہ ہے۔ جس کے ذریعے باقاعدہ منظم اور نہایت مربوط طریقے سے اسلام اور اسلامائزیشن کی بنیاد یعنی مساجد اور مدارس کے معاشی نظام کا نہ صرف گلا گھونٹنا مقصود ہے, بلکہ اس کی زد میں وہ تہی دست اور احتیاج زدہ عام مذہبی طبقہ بھی آئے گا, جس کا گزر بسر پہلے ہی عموماً محلے کی روٹیوں پر اور مساجد کے حجروں کی بوسیدہ اور کمزور چھتوں کے نیچے ہوتا ہے۔

(جاری ہے)


 اس حوالے سے معتدل مزاج اور متوازن کردار کے حامل  عالم دین مفتی تقی عثمانی سمیت دوسرے بڑے اور جید علماء کرام نے بھی حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا, اور کہا کہ آخر ایسی کیا آفت پڑی تھی کہ اس قدر حساس معاملے پر حکومت نے عجلت اور جلد بازی میں پارلیمنٹ سے یہ قانون منظور کروا لیا۔ جب کہ اس معاملے میں علماء اور اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار کو بھی یکسر فراموش کر دیا گیا۔

نیز اس وقت ملک کے تمام مسالک کے علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ وقف املاک بل جو قومی اسمبلی نے جلدی میں پاس کیا ہے، اس کے کئی حصے شریعت کے بالکل خلاف ہیں, جب کہ اس کے کئی حصے تو آئین پاکستان سے بھی متصادم ہیں, اور یہ قوانین وقف املاک کے اصل مقاصد کے لئے ضرر رساں اور کرپشن کا ایک نیا دروازہ ہیں۔
  اس بات میں کچھ شبہ نہیں کہ FATF کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ہمیں غیر معمولی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اور یقیناً اس کے لیے ہمیں  کڑوے گھونٹ بھی پینا پڑیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہماری مساجد اور مدارس کا انتظامی ڈھانچہ از سر نو ترتیب دینے کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ جدید دنیا کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اس میں وہ صلاحیت موجود نہیں, جو وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔ اور یقیناً ہم اس سلسلے میں اب تک کوئی ایسا لائحہ عمل بھی تشکیل نہیں دے پائے, جو وقت کے ساتھ ساتھ شرعی حدود میں رہتے ہوئے مساجد اور مدارس کے قدیم نظام کی تطہیر کا باعث ہو۔

لیکن بلاشبہ ہمیں اس سلسلے میں ہوش و حواس سے کام لینے کی ضرورت ہے, اور اس سلسلے میں ہمیں اپنی بنیادی و نظریاتی اساس کے تصور کو کسی صورت پس پشت نہیں ڈالنا چاھیے۔ اگر کسی ایسے قانون کی ضرورت آن ہی پڑی تھی, تو یہ معاملہ علماء کرام کے تصرف و اختیار میں دیا جاتا, اگر پھر بھی کوئی امر مانع تھا تو جو کچھ بھی لائحہ عمل مرتب کیا جاتا, وہ اس ملک کی نظریاتی اساس کے محافظ علمائے کرام سے مشاورت کے بعد کیا جاتا۔

لیکن بدقسمتی سے اس معاملے میں علماء کرام کو بالکل بے خبر رکھا گیا, حالانکہ یہ سارا سلسلہ بالعموم اور بالخصوص انہی سے متعلقہ تھا۔ اور یقیناً امن پسند معتدل مزاج علماء اس سلسلے میں ضرور کوئی بہتر اور موثر کردار ادا کرتے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ علماء کرام نے اپنی ملک و ملت کے لیے ذاتی و گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچا, اور ایسے اجتماعی مسائل پر حکومت وقت کا بھرپور ساتھ دیا۔

اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنی جانوں سمیت کئی بے مثال قربانیاں بھی دیں۔
 تاریخ پاکستان کا اگر گہرا اور عمیق مطالعہ و مشاہدہ کیا جائے اور ان عوامل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جو آج تک نظریہ پاکستان کے احیاء کا باعث بنے رہے, اور جنہوں نے پاکستان کی تہذیبی, ثقافتی, اور معاشرتی میراث کی حفاظت اور ذہنی ساخت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا تو ان میں ہمارے اسی درجے کے علماء کرام کا کردار نمایاں اور واضح نظر آتا ہے۔

مغرب کی نظری و فکری یلغار ہو یا لادین قوتوں کی بھرمار, دہشت گردی اور شدت پسندی جیسی لعنت کا عفریت ہو یا فرقہ واریت کا بدنام زمانہ آسیب, ہر موقعہ پر ان معتدل اور وسیع النظر علمائے کرام نے اسلام کا متوازن رخ پیش کر کے دشمن کی چالاکیوں اور اس کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا۔ اور بلاشبہ آج بھی اس کڑے وقت میں جب کہ ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ والی تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے, ہمیں علماء کرام کے اسی مثبت اور تعمیری کردار سے مستفید ہونے کی اشد ضرورت ہے۔

ورنہ غلط فہمیوں اور بداعتمادیوں کی ایک ایسی فضا پیدا ہونے کا خدشہ ہے جو ایک عرصے بعد بننے والی امن و امان کی نوتعمیر عمارت میں دراڑیں پیدا ہونے کے مترادف قرار دی جا سکتی ہے۔
اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ بارہویں صدی سے لے کر بیسیویں صدی کے آغاز تک مسلمانان عالم کی قیادت علمائے کرام کے ہاتھوں میں رہی۔ 1192-93 میں قطب الدین ایبک نے ہندوستان میں پہلی مسلم حکومت کی بنیاد رکھی اور یہ سلسلہ انگریزوں کی 1857 میں بالادستی اور حکومت تک جاری و ساری رہا۔

مسلمانوں کے اس آٹھ سو سالہ دور حکومت کے دوران علماء کو ہمیشہ دربار اور شاہی حلقوں میں اہم اور نمایاں حیثیت حاصل رہی۔ سبھی مسلمان بادشاہ اُن سے مشاورت کرتے رہے, اور ضرورت پڑنے پر ان کے علم و شعور سے مستفید ہوتے رہے۔ گویا ایک طرح سے علماء شریک اقتدار تھے اور بعض اوقات بادشاہ گر کا رول بھی ادا کرتے تھے۔ اور پھر بلاشبہ ضرورت پڑنے پر یہی علماء کرام مزاحمت کے علمبرداربھی بنے۔

اکبر بادشاہ سب سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور حکمران تھا اور اس کی بادشاہت 49 برس یعنی نصف صدی تک قائم رہی۔ لیکن جب اس نے دین الہٰی کی جسارت کی تو نہ صرف مجدد الف ثانیؒ جیسے علماء  بلکہ ان کی قیادت میں بڑے بڑے اہل علم و دانش نے بھی مزاحمت کی۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح اورنگزیب کے انتقال کے بعد جب مسلمانوں کے اقتدار کا شیرازہ بکھرنے لگا تو تاریخ گواہ ہے کہ اس دور کے علماء نے ایسا معنی خیز کردار ادا کیا جو تاریخ کے سنہرے اوراق میں آج بھی محفوظ ہے۔


 آج بھی حکومت وقت کو حالات کی اس سنگینی کو بھانپتے ہوئے وقف املاک ایکٹ 2020 پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اس سلسلے میں عوامی سطح پر ایک متفقہ بیانیہ تشکیل دیا جائے, جس سے تمام خدشات اور تحفظات کا ازالہ ممکن ہو سکے۔ لیکن بحرحال اس سلسلے میں علمائے کرام اور اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جانا چاھیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :