"عالمی یوم جمہوریت اور اجتماعیت کا اسلامی تصور"

پیر 14 ستمبر 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے جو  آمریت کے برخلاف عوامی حکومت کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس طرز حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ جنہیں ڈائریکٹ عام عوام چنتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جمہوریت کسی بھی ریاست یا سماج کی سیاسی تنظیم کی ایک ایسی شکل ہے جس میں اختیار اور اقتدار ان ڈائریکٹلی عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس میں قانونی طور پر تمام شہریوں کو مساوی اور برابر کے حقوق تفویض کیے جاتے ہیں ،انہیں ریاست کے معاملات میں حصہ لینے اور فیصلہ کرنے سمیت تمام سیاسی ،سماجی ، معاشرتی حقوق اور انتخابات میں حصہ لینے کی بھی آزادیاں حاصل ہوتی ہیں۔

اور تمام شہریوں کے مذاہب محفوظ ہوتے ہیں, اور ان کے جان ومال کی حفاظت کی ضمانت دی جاتی ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

 
ویسے تو جمہوریت کا تصور ھندوستان, یونان اور روم میں 100 برس قبل مسیح سے ملتا ہے۔ لیکن حقیقی طور پر اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں  جمہوری نظام  نے ایک منظم شکل اختیار کی اور وہ جمہوریت وجود میں آئی جو آج موجود ہے۔

اسے لبرل ڈیموکریسی اور اردو میں "آزاد خیال جمہوریت" سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ جن مفکرین نے جمہوریت کی یہ صورت گری کی اور جن کو آزاد خیال جمہوریت کا بانی سمجھا جاتا ہے, ان میں والٹیئر، مونٹیسکو اور روسو ہیں۔ یہ تینوں فرانس کے فلسفی ہیں، انہی کے افکار ونظریات کی بنیاد پر جمہوریت کی ترویج و ترقی کا عمل جاری رہا, اور یوں آج یہ نظام دنیا کے 120 ممالک میں باقاعدہ اور مربوط شکل میں موجود ہے۔

اسی طرح 2007 میں اقوام متحدہ کی ایک قرار داد کے مطابق 15 ستمبر کو ہر سال عالمی سطح پر "یوم جمہوریت" منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور یوں یہ دن پہلی مرتبہ 2008 ء میں منایا گیا, اور تب سے سے یہ ہر سال تسلسل کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔
جمہوریت اجتماعیت کا علمبردار نظام حکومت ہے۔  جب کہ بحیثیت مسلمان اجتماعیت کا تصور اسلام کا ایک بنیادی وصف ہے۔

جس میں عوام لناس حاکم وقت کے لیے اپنی رضا و منشا کا اظہار کرتے ہیں۔  اس لحاظ سے جمہوریت اور اسلامی طرز حکومت کے تصور کے بنیادی نقطے میں ایک حد تک مماثلت پائی جاتی ہے, اور یقیناً اس مرکزی نقطے کے علاوہ بھی بہت ساری خصوصیات اسلامی تصور حکومت  اور موجودہ مغربی نظام جمہوریت میں موجود ہیں۔ لیکن چونکہ موجودہ جمہوری نظام غیر مسلم مغربی مفکرین کی ذہنی اختراع ہے۔

اور یقیناً ان مغربی مفکرین کے لیے اسلامی اصولوں کی پاسداری کچھ معنی نہیں رکھتی تھی, اس لیے کچھ ذیلی نظریات و تصورات میں فرق بھی پایا جاتا ہے۔ جن کی بنیادوں پر اکثر مسلمان حلقوں خصوصاً مذہبی طبقہ جمہوریت کو کفریہ نظام بھی قرار دیتا ہے۔ لیکن شاید اس سلسلے میں درمیانہ موقف یہ ہے کہ ان جمہوری اصولوں کو جو اسلام سے متصادم ہیں کو اسلامی اصولوں سے بدل دیا جائے جیسے کہ عوامی حاکمیت کے خالص مغربی تصور کا ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں رد کر دیا گیا ہے۔

اور قانون سازی کا قرآن و سنت کے مطابق ہونا لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔ تو اس طرح دوسرے مشتبہ امور کو بھی اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کر کے موجودہ مغربی جمہوریت کو اسلام کے تصور اجتماعیت کے متبادل قرار دیا جا سکتا ہے۔ جب کہ اس طرح سے یہ جمہوریت نفاذاسلام میں بھی کسی طور بھی کوئی رکاوٹ نہیں بنے گی,  بلکہ اگر خالص جمہوری اصولوں کی نگاہ سے دیکھا جائے تو خود جمہوری اصولوں کا تقاضا ہے کہ ہمارے ہاں اسلامی نظام کا قیام عمل میں لایا جائے۔


بلاشبہ اسلام نے موجودہ جمہوری نظام  کا نقشہ 1400 سال پہلے ایسے کھینچا اور خلفاء راشدین کے ہاتھوں وہ شاندار نمونہ پیش کیا کہ اہلیان مغرب نے اسے اپنی کامیابی کی کلید جان کر اسے اپنا لیا۔  اور ہر گام کامیابیاں حاصل کیں۔ کہتے ہیں کہ گاندھی جی نے جب حضرت عمرؓ کے دور حکومت کا مطالعہ کیا تو اس پر حیرت و استعجاب کے رنگ اس قدر گہرے ہوئے۔

اور برملا اعتراف کیا کہ واقعتاً جمہوریت کی فلاح و بہبود تو اسی میں ہے اس سے باہر نہیں۔ چنانچہ تمام سرکاری محکمات کے ذمے داران کو لکھا کہ اگر تم جمہوری ہندوستان کو کامیاب بناناچاہتے ہو تو خلیفۂ اسلام حضرت عمرؓ کے طریقے اور ان کے جیسے نظام کو عمل میں لاؤ۔ آج یورپین اور اہل مغرب خوش ہیں کہ جمہوری طرز حکومت ان کی طبع رساء کا نتیجہ ہے, حالانکہ اسلامی تاریخ کی چھان پھٹک کی جائے دیکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جمہوریت کا اصل خمیر سرزمین حجاز سے ہی نکلتا ہے۔

جب کہ یہ عقدہ بھی وا ہوتا ہے کہ جب سرزمین عرب پر اسلام کا پرچم لہرایا تھا تو اس وقت یورپ اور مغرب نہ صرف طفل مکتب تھے بلکہ ان کے یہاں آمریت زدہ شخصی حکومتیں تھیں اور ان کے دساتیر میں مساوات نام کی کوئی چیز نہیں تھی اس وقت تک مسلمانوں کو آئین جمہوریت کی مکمل تعلیم دی جاچکی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد کے ملوک وسلاطین اسلام نے اپنی ذاتی منفعت کی بناء پر اس کی قدرنہ کی اور جمہوری حکومت کے بجائے شخصی حکومتوں کو فروغ دیا۔


لہذا آج یہ بات من و عن تسلیم کیے جانے کے لائق ہے کہ مغربی تصور جمہوریت اسلام کے تصور اجتماعیت سے ہی اخذ شدہ ہے, اور یقیناً غیر مسلم دماغ میں پنپنے کے سبب اس میں در آنے والے اسلامی اصولوں سے متصادم نظریات کو چند معمولی تبدیلیوں سے نہ صرف اسے آئیڈیل نظام حکومت بنایا جا سکتا ہے۔  بلکہ اس مغربی جمہوری فصل سے غیر ضروی جڑی بوٹیوں کو نکال کر اسے کارآمد اور مستند اسلامی جمہوریت میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :