"نابینا افراد، حکومتی توجہ کے منتظر"

پیر 12 اکتوبر 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

خالق کائنات نے بنی نوع انسان کو جہاں اور بڑی بڑی نعمتوں سے نوازا ہے, وہیں ایک اہم اور بیش قیمت نعمت دو آنکھیں بھی دی ہیں۔ یہ آنکھیں انسان کو کائنات کی رنگینیوں اور اس کی بو قلمونیوں کا مشاہدہ کراتی ہیں۔ اسی نعمت کے ذریعے انسان خدا کے جلووں, اور کائنات میں اس کے مختلف مظاہر کو پہلے دیکھتا ہے, سوچتا ہے, اور پھر پرکھتا ہے۔

بلاشبہ قدرت کے عطاکردہ یہ دو ہیرے, انمول اور بےمثل حیثیت کے حامل ہیں۔ اور ان کی قدر و قیمت کی صحیح,اصل پہچان اور اندازہ وہی شخص کر سکتا ہے, جسے یہ نعمت عظیم میسر نہیں, یا جو ان سے محروم ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سنہ 2020ء کے آخر تک بصارت سے محروم افراد کی تعداد 30 کروڑ تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

(جاری ہے)

جب کہ اس وقت پاکستان میں تقریباً 20 لاکھ افراد بینائی سے مکمل طور پر محروم ہیں, یہاں اندھے پن کی شرح 1.08 فیصد ہے، جبکہ پاکستان میں جزوی طور پر نابینا افراد کی تعداد تقریباًساٹھ لاکھ کے قریب ہے۔

جن میں 66 فیصد افراد موتیا، 6 فیصد کالے پانی اور 12 فیصد بینائی کی کمزوری کا شکار ہیں۔ اور بلاشبہ یہ بیماریاں بتدریج مستقل نابینا پن کی طرف لے جاتی ہیں۔ اگر جنوبی ایشیاء کی حد تک دیکھا جائے تو اس سارے خطے میں تقریباً ایک کروڑ 17 لاکھ افراد آنکھوں کے  مختلف امراض کا شکار ہیں, جبکہ مشرقی ایشیاء میں یہ تعداد تقریباً 60 لاکھ 20 ہزار ہے۔ اور جنوب مشرقی ایشیاءکی تقریباً تیس لاکھ 50 ہزار کی آبادی اس مرض سے متاثرہ ہے۔


اس تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں 15 اکتوبر کو نابینا افراد کے عالمی دن کے طور پر مخصوص کر دیا گیا۔ جسے سفید چھڑی کے دن کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس کا آغاز 1930 میں فرانس کے شہر پیرس سے ہوا, جب بصارت سے محروم افراد کودرپیش مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ان کی چھڑیوں کو "سفید چھڑی" کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ اور یوں اب "سفید چھڑی" نابینا افراد کی ایک نمایاں پہچان بن چکی ہے۔

جب کہ پندرہ اکتوبر 1965 سے اس دن کو باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی شامل کر لیا گیا, تاکہ نابینا افراد کو درپیش مسائل اور مشکلات سے معاشروں کو آگاہ کیا جائے, اور یہ باور کرایا جائے کہ معذور افراد بھی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ ایک ذمہ دار شہری ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں نابینا افراد کی دلجوئی اور اشک شوئی کے لیے تقاریب اور مختلف پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں, اور بلاشبہ نابینا افراد کو ماہ اکتوبر کے اس دن کا شدت سے انتظار رہتا ہے، کیونکہ اس دن منعقد ہونے والے سیگمنٹس نابینا افراد کے لئے انتہائی مسرت اور شادمانی کا باعث بنتے ہیں۔


 اگرچہ پاکستان میں بھی نابینا افراد کے لیے اس دن کو رسمی طور پر منایا ضرور جاتا ہے۔ لیکن بصارت جیسی نعمت سے محروم ان خصوصی افراد کو اجتماعی اور انفرادی سطح پر وہ توجہ اور دھیان میسر نہیں, جو باقی دنیا میں نابیناؤں کو میسر ہے, اور نہ ہی وہ سہولیات اور استثناء حاصل ہے, جو باقی ممالک میں بسنے والے نابینا  افراد کو ملتا ہے۔ پاکستان میں یہ دن پہلی بار پندرہ اکتوبر 1972 کو منایا گیا، مگر حکومتی عدم توجہی کے باعث یہ دن صرف منانے کی حد تک ہی محدود رہ گیا۔

اور ہر سال صرف دعووں وعدوں کے رسمی بیانات کے علاوہ آج تک ان کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہ کیا جا سکا۔ ہمارے یہاں تو ان مخصوص افراد کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے, کہ نابینا افراد کو اپنے حقوق اور مسائل کے حل کے لیے نہ صرف سڑکوں پر آنا پڑتا ہے, بلکہ انہیں پولیس کے لاٹھی چارج اور بہیمانہ تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اور صرف یہی نہیں ہمارے معاشرتی سسٹم نے بھی نابینا افراد کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا۔ کیونکہ بنیادی طور پر ہمارا شمار تیسرے درجے کے ممالک میں شمار ہوتا ہے, جہاں کے رہنے والے 90 فیصد مڈل یا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن میں تقریباً 30 فیصد سے زیادہ تو صرف وہ ہیں جو اس وقت خط غربت سے بھی انتہائی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اور غذائی کمی کا شکار ہیں۔

  بدقسمتی سے اس ماحول میں ہزاروں آنکھوں سے محروم افراد یا تو بھیک مانگنے پر مجبور ہیں, یا ان کا طرز معاش صدقہ,خیرات اور زکات ہے۔
  اسی طرح ہمارے ہاں نابینا افراد کو کار آمد شہری بنانے کے ادارے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں, اور ان خصوصی افراد کو کسی قسم کی سہولت یا آسانی بھی میسر نہیں۔ ان افراد کو روز مرہ کے کاموں کی انجام دہی میں بھی اکثر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

تا ہم آٹے میں نمک برابر کچھ ادارے اس کارخیر میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ جن میں ایک اہم اور نمایاں نام "پاکستان ایسوسی ایشن آف بلائنڈ اینڈ ڈیف " کا بھی ہے، پیب کے نام سے مشہور اس ادارے کے فوکل پرسن کئی بار تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ حکومتی سطح پر نابینا افراد کے لیے کوئی مخصوص  پالیسی آویزاں نہیں۔ اور ان کے مسائل کی شرح میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے ہاں اسی سلسلے کا ایک اور بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں معذور افراد کی فلاح وبہبود کے لیے " قومی بحالی و روزگار برائے معذوران ایکٹ 1981 " کے علاوہ کوئی جامع قانون موجود نہیں۔ اگرچہ اس ایکٹ کے تحت معذور افراد کا تمام نجی وسرکاری اداروں میں ملازمتوں کا تین فیصد کوٹہ موجود ہے, اور حکومتی سطح پر علاج کی مفت سہولیات، اور اعضاءکی بحالی کے اقدامات بھی شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ معذور افراد کے بچوں کی سرکاری اداروں میں 75 فیصد جب کہ نجی اداروں میں 50 فیصد فیس معافی اور روزگار کی فراہمی کو بھی لازم قرار دیا گیا ہے۔ مگر بد قسمتی سے یہ ایکٹ بھی صرف کتابوں تک ہی محدود رہا, نہ تو آج تک اس ایکٹ پر باقاعدہ عمل درآمد ہو سکا اور نہ ہی اس کی صراحت اور مزید بہتری کے لیے کوئی نیا قانون بنایا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی مدد آپ کے تحت اعلیٰ  تعلیم حاصل کرنے والے نابینا اور دوسرے خصوصی افراد روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز سڑکوں پر احتجاج کرتے اور در در کی ٹھوکریں کھاتے نظر آتے ہیں۔

ان خصوصی افراد کے ساتھ یہ سلوک دنیا کے کسی اور خطے میں شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔
  بلاشبہ بصارت سے محروم یہ لوگ ملک و قوم کا عظیم اثاثہ ہیں۔ اور انہیں مناسب سہولیات اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنا ہمارا قومی فرض بھی, اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر  میں نابینا اور دوسرے ہر سطح کے معذور افراد کے صحیح اور مستند اعداد و شمار مرتب کیے جائیں۔

اور ترجیحی بنیادوں پر ان کے مسائل کا فوری ازالہ کیا جائے۔ اور انہیں دوسرے ممالک کی طرح بہتر نظام زندگی مہیا کیا جائے۔ یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ جب قدرت کسی سے ایک نعمت لیتی ہے تو ان میں دوسری کئی صلاحیتوں کو وافر مقدار میں بیدار بھی کردیتی ہے۔ ہمارے یہاں ایسے  بصارت سے محروم نظرآنے والے یہ لوگ چشم بصیرت رکھتے ہیں ان کے دل کی آنکھیں روشن، ان کے دماغ سوچ رکھنے والے اور قدرت کی نشانیوں کے عکاس ہیں۔

جس کی واضح مثال گزشتہ سالوں میں دو مرتبہ ان خصوصی افراد کا پاکستان کو بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ جتوانا ہے۔ کہ کیسے بصارت سے محرومی کے باوجود حب الوطنی سے سرشار ان نابینا نوجوانوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا نہ صرف نام روشن کیا, بلکہ اپنی قابلیت اور مخفی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔ یقیناً یہ نابینا افراد آج خصوصی حکومتی توجہ کے منتظر ہیں, اور حکومت ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے انہیں سوسائٹی کا اہم ستون بنا سکتی ہے۔ اور ان بصیرت افروز نابینا افراد کو باعزت روزگار دے کر یا مناسب وظیفہ مقرر کرکے ان کو معاشرے کا بہترین فرد بنانے میں موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :