" اقوام متحدہ کے 75 برس' کیا کھویا پایا "

منگل 20 اکتوبر 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

 پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد عالمی دنیا کو ایک ایسے مشترکہ ادارے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی جو بین القوامی سطح پر امن و امان کے قیام اور اقوام عالم کے درمیان متنازعہ امور کا جنگ و جدل کے بغیر تصفیہ ممکن بنا سکے۔  
 اس وقت کے فرانسیسی برطانوی, امریکی اور روسی تھنک ٹینکس نے مستقبل میں جنگ کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ایک متفقہ لائحہ عمل طے کیا, اور بالآخر "لیگ آف نیشنز" کے نام سے ایک عالمی ادارے کا قیام عمل میں لے آئے۔

اگرچہ شروع میں عالمی امن کے حوالہ سے اس ادارے کا کردار نہایت مثبت اہمیت کا حامل رہا, لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی بنیادی خامیاں اور کمزوریاں واضح ہوتی چلی گئیں, اور ایک وقت ایسا آیا کہ یہ غیر موثر ہو کر محض علامتی حیثیت اختیار کر گیا۔

(جاری ہے)

اور یوں دنیا ایک بار پھر دوسری جنگ عظیم کی شکل میں خوفناک تباھی کی دلدل میں دھنس کر رہ گئی۔ اور اس کے کارپرداز منہ دیکھتے رہ گئے "لیگ آف نیشنز" کا آخری اجلاس 18 اپریل 1946ء کو ہوا جس میں 34 نمائندہ ممالک نے شرکت کی, صرف 26 سال تک قائم رہنے والی اس تنظیم کو انتہائی متنازع حیثیت میں 20 اپریل 1946ء کو ختم کر دیا گیا۔

  1945ء کے وسط میں جنگِ عظیم دوم کا خون آشام عفریت جب نو کروڑ لوگوں کا خون پینے کے بعد اپنے انجام کو پہنچ چکا تو دنیا کے بڑے عالی دماغوں نے ایک بار پھر عالمی امن کے قیام کے لیے سر جوڑ لیے۔ اور اقوام متحدہ کے نام  سے ایک نئی بین الاقوامی تنظیم کا قیام مزید بہتر اصولوں کے ساتھ عمل میں لے آئے۔
 24 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ نے باقاعدہ کام کا آغاز کر دیا ۔

1945 میں اس کے ابتدائی ممبر ملکوں کی تعداد 51 تھی جو اب 193 کے لگ بھگ ہو چکی ہے، اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر 26 جون 1945 کو سان فرانسسکو میں دستخط کئے گئے۔ جو اب اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک کے لئے ایک بنیادی دستاویز ہے۔ اقوامِ متحدہ کا بنیادی مقصد آئندہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا تھا, اس کے علاوہ دیگر بڑے مقاصد میں دنیا بھر میں امن عامہ اور سیکورٹی معاملات کو بہتر بنانا، قوموں کے درمیان رشتے بڑھانا، معاشی، سماجی، ثقافتی یا بین الاقوامی انسانی مسائل کے حل کے لیے قوموں کے درمیان تعاون کو بڑھانے جیسے امور شامل کیے گئے۔


اس وقت اقوامِ متحدہ کا ہیڈ کوارٹر نیویارک امریکہ میں قائم ہے۔ جب کہ ذیلی دفاتر یا ادارے جنیوا، نیروبی، ویانا اور ہیگ میں موجود ہیں، اس ادارے کی دفتری زبانیں ، عربی ، چینی، انگریزی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی طے کی گئیں ۔
   اقوام متحدہ کی پچھلی 75 سالہ تاریخ کا عمیق مشاہدہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہ عالمی ادارہ آج تک اپنے قیام کے بنیادی مقصد کو پورا کرنے میں اس حد تک ضرور کامیاب رہا کہ اس نے گزشتہ 75 برسوں میں دوسری عالمی جنگ جیسی کسی بہت بڑی آفت سے دنیا کو بچائے رکھا، مزید برآں تیسری دنیا کے ممالک کی سلامتی, امن عامہ, رہائش, خوراک, صحت, تعلیم, اور ان جیسے دوسرے مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ موثر کردار کا حامل رہا۔

لیکن حقیقت میں یہ ادارہ عالمی امن اور دنیا کے دوسرے ذیلی معاملات و مسائل میں کوئی فعال کردار ادا کرنے میں اب تک ناکام ہے۔ اور اقوام عالم کے اس معیار پر ابھی تک پورا نہیں اتر پایا جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسے اس مضبوط عالمی ادارے کے باوجود دنیا نے کوریا، ویت نام اور روس, افغان جیسی طویل المدت اور تباہ کن جنگوں کا خمیازہ بھگتا ہے۔

اور یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان جنگوں میں اب تک لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے, یقیناً اس تمام سلسلے میں اقوام متحدہ کا کردار محض خاموش تماشائی کا ہی رہا۔ عراق پر امریکی حملہ ابھی زیادہ پرانی بات نہیں, جب اقوام متحدہ کے روکنے کے باوجود امریکہ عراق جیسے چھوٹے سے ملک پر چڑھ دوڑا, اور اقوام متحدہ بے بسی کا عملی نمونہ بنا کچھ بھی نہ کر پایا۔

  اسی طرح دنیا کے مختلف گوشوں میں جاری خوں ریزی اور چھوٹے بڑے تنازعات اور قتل و غارت گری کے واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی میں آج تک مکمل  کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیا۔  
 ادھر اگر دنیا میں قیامِ امن کی راہ میں رکاوٹ بننے والے محرکات کا جائزہ لیں تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس مقصد کے لیے قائم اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے سلامتی کونسل پر پانچ بڑی طاقتوں کی اجارہ داری ہے, جنہوں نے اسے تقریباً یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے۔

اور یہ 5 ممالک باقی دنیا کے لیے پولیس مین کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ اور ویٹو پاور نامی ایک ایسی لاٹھی اٹھائے ہوئے ہیں, جس سے وہ وقتاً فوقتاً باقی تمام دنیا کو اپنی مرضی سے ہانکنے کا کام لیتے چلے آئے ہیں۔
اسی طرح اگر ہم اسلامی دنیا کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کردار کا جائزہ لیں تو ہمیں چہار اطراف مایوسی کے سیاہ گھنے بادل ہی چھائے نظر آتے ہیں۔

  بدقسمتی سے اس وقت دنیا کے زیادہ تر شورش زدہ علاقے اسلامی ممالک کے ہی ہیں جن میں مصر، شام ، یمن, افغانستان اور سوڈان شامل ہیں۔ ان کے علاوہ مسلم امہ کی دو اہم دکھتی رگیں مسئلہ کشمیر اور فلسطین ہے, جو آج بھی جوں کے توں پڑے ہیں, اور وہاں آج کی اس جدید دنیا میں بھی ظلم و بربریت اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ یہ دو وہ سلگتے مسائل ہیں کہ جن پر آج عالم اسلام کا ہر باشعور انسان خون کے آنسو روتا ہے, اور اقوام متحدہ سے ایک ہی سوال پوچھتا ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کے حل کے لیے اور کتنا خون بہانا پڑے گا؟ اور کیا ان علاقوں کے نہتے مسلمانوں کا خون اتنا ہی ارزاں ہے کہ کوئی جب چاہے, کسی گلی محلے, چوک چوراہے یا سڑک پر بہا دے۔

مسئلہ فلسطین پر تو اقوام متحدہ کا جانبدارانہ کردار اسی وقت ہی ظاہر ہو گیا تھا, جب 1948 میں ناجائز اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اور آج نصف صدی بعد بھی جب کہ سوائے امریکہ کے ساری دنیا فلسطین کے موقف کی حمایت کر رہی ہے, اقوام متحدہ اس تصفیے کا کوئی منصفانہ حل نکالنے میں ہنوز ناکام ہے۔ جب کہ ادھر کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی اپنی ہی قرار دادوں پر عمل درآمد کروانے میں بے بس اور لاچار دکھائی دیتا ہے۔

صرف یہی نہیں پاکستانی نژاد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے تو اقوام متحدہ کا کردار اور بھی مشکوک ہے کہ آج 17 سال گزرنے کے بعد بھی وہ بغیر کسی جرم کے امریکہ میں پابند سلاسل ہے۔ جب کہ ادھر اقوام متحدہ میں بڑے بڑے انسانی حقوق کے چیمپینز اور خواتین کے حقوق کی علمبردار طاقتیں بیٹھی ہیں, جو دنیا بھر میں حقوق انسانیت اور حقوق نسواں کا پرچار کرنے میں پیش پیش ہیں۔

آخر اس  نہتی مسلمان خاتون کے نام پر تمام دنیا کو کیوں سانپ سونگھ جاتا ہے؟ آخر کون سا ایسا جرم تھا جس سے اسے نشان عبرت بنا دیا گیا۔
یہ تمام سوالات آج تک حل طلب ہیں۔ اقوام عالم اور بڑی طاقتوں کو دنیا میں پائیدار امن اور اس جدید دنیا کی بقا اور سلامتی کی خاطر ان حقائق کو خلوص نیت سے زیر غور لانا ہو گا۔ انہیں اپنی روش بدلنا ہو گی, اور دنیا کے موثر استحکام کی خاطر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

آج بلاشبہ اقوام متحدہ کی شکل میں انسانی تاریخ میں پہلی بار کوئی ادارہ پوری دنیا کے اجتماعی امن و استحکام کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ اقوام عالم کو اس نمائندہ ادارے کی مکمل آزادی اور اسے بااختیار بنانے کی اہمیت کو سمجھنا چاھیے۔ دنیا کے بڑے اور طاقت ور ممالک کو بین الاقوامی قواعد و ضوابط اور ان کے متعلق اپنے وعدوں کا پابند رہنے کی بھی ضرورت ہے۔

اب یقیناً دوہرے معیار اپنانے کا وقت گزر چکا۔ آج وقت اور حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور نئی ابھرتی عالمی طاقتیں اپنا ایک مخصوص اثرو رسوخ رکھتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں بڑے چوھدریوں کو ان نئی ابھرتی ہوئی عالمی طاقتوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ یہ دنیا کی سلامتی اور امن عالم کے لیے ازحد ضروری ہے۔ اور اس لیے بھی کہ آج کی پون صدی کی اقوام متحدہ آنے والے وقتوں میں" لیگ آف نیشنز " کی طرح کہیں غیر موثر اور غیر فعال ہو کر ہی نہ رہ جائے, اور دیگر اقوام عالم کا اعتماد کہیں کھو نہ بیٹھے۔ یقیناً اس وقت اقوام متحدہ کا متوازن کردار وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ اللہ نہ کرے کسی تیسری عالم جنگ کا طبل بجنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :