"کیپٹل ازم اور ہمارے مسائل"

اتوار 13 ستمبر 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

کسی گڑھے میں پانی زیادہ دیر کھڑا رہے تو تعفّن اور بدبو پیدا کرتا ہے۔ جس سے آس پاس کی فضا اور ماحول آلودہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور وہاں پر بسنے والے افراد میں طرح طرح کی بیماریاں اور  امراض کا پھیلاؤ یقینی ہوا کرتا ہے ۔ دنیا بھر کے ماہرین معاشیات کا اس امر پراتفاق ہے کہ دولت کا اتکاز معاشروں میں معاشی اور اقتصادی بگاڑ پیدا کرتا ہے۔

جس سے امیر,امیر تر اور غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب کہ سرمایہ محض چند ہاتھوں میں منتقل ہو کر جوہڑ میں کھڑے تعفن زدہ پانی کی طرح سماجی اور معاشی ناہمواریاں پیدا کرتا ہے۔ اسے دوسرے لفظوں میں سرمایہ دارانہ نظام بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
  پچھلے دنوں ایک دوست سے جو ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرتے ہیں, انہوں نے بتایا کہ ان کو اور ان کے ساتھ والے ورکرز کو پچھلے دو ماہ سے کام میں مندے کی وجہ سے تنخواہ نہیں مل رہی, صرف طفل تسلیوں سے کام لیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن حقیقت میں ان سے 12 گھنٹے کی ڈیوٹی اور کام اسی طرح لیا جا رہا ہے, جس طرح عام دنوں میں ہوتا ہے۔ اب اس کمر توڑ مہنگائی میں کسی مزدور کو اس کی اجرت نہ ملے تو اس کے نتائج کا تصور ہر ذی شعور اچھی طرح کر سکتا ہے۔ جب کہ دوسری طرف انہوں نے بتایا کہ ان کے ادارے  کے اونر کے پاس ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی ہے۔ کئی کنال کا گھر ہے, جہاں 24 گھنٹے درجن بھر AC لگاتار چلتے رہتے ہیں, ایک 7 لاکھ کا کتا ہے, جس کی ایک دن کی خوراک کا تخمینہ ہزاروں میں ہے۔

جب کہ چند دن پہلے وہ امریکہ برطانیہ سمیت 6 ممالک کی سیاحت سے بھی واپس آئے ہیں, یعنی اس مندے سے ان کے ذاتی معاملات پر ذرہ برابر فرق نہیں پڑا۔ لیکن اپنے مزدوروں کو اجرت دینے کے لیے ان کے پاس پیسہ نہیں۔
  انیسویں صدی کا عظیم مغربی فلاسفر اور معیشت دان کارل مارکس جس نے اپنے نظریات سے اس سرمایہ دارانہ نظام کے پرخچے اڑا کر رکھ دئیے, اپنی کتاب " داس کیپٹل" میں کہتا ہے کہ آج سرمایہ دار معاشی ماہرین نے انسان کے ہر مسئلے کو معیشت سے جوڑ دیا ہے, آج دنیا میں زیادہ سے زیادہ اطمینان اور سکون حاصل کرلینا ہی زندگی کا   اصل مقصد سمجھا جاتا ہے۔

یہ معاشی ماہرین انسان کے اخلاقی وجود کا یکسر انکار کرتے ہیں۔ اب یقیناً  یہ اطمینان اسی وقت ملے گا جب انسان کے پاس زیادہ سے زیادہ اطمینان حاصل کرنے کے ذرائع آئیں گے۔ ان ذرائع کو صرف پیسے ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لہذا ہر شخص کا بنیادی مسئلہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے۔ کارل مارکس کے بقول جب انسان کو یہ پیسہ نہیں ملتا تو وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتا ہے۔

وہ جنگیں لڑتا ہے، وہ مار دھاڑ اور لوٹ کھسوٹ کرتا ہے، وہ اخلاقیات و سماجیات کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتا ہے۔
 مارکس کے مطابق دولت چار عاملین پیدائش کے تعاون سے پیدا ہوتی ہے, زمین, مزدور, سرمایہ اور تنظیم,  لیکن دولت کی پیدائش میں ان چاروں عاملین کی نسبت سب سے زیادہ کردار مزدور یا ہنرمند کا ہوتا ہے, لہٰذا اصولی طور پر اس زائد قدر کی بنیاد پر جو منافع پیدا ہوتا ہے وہ اس کے تخلیق کار کے مابین برابر تقسیم ہونا چاہئے۔

وہ کہتا ہے کہ سرمایہ دار کا سرمایہ پیسے کی شکل میں ہے, اور مزدور کا سرمایہ اس کی محنت کی صورت میں ہے۔ اب ظاہر ہے سرمایہ دار کے پاس محنت نہیں, اور مزدور کے پاس پیسہ نہیں, اب یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں کے سرمایے کے تبادلے کی صورت میں حاصل ہونے والا منافع بھی دونوں میں برابری کی سطح پر تقسیم ہونا چاھیے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم سے مزدور کا استحصال ہوتا ہے اور امیر اور غریب میں تفاوت دن بدن بڑھتا جاتا ہے۔ کارل مارکس نے اپنے انہی نظریات کی بنا پر آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے ہی یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ آنے والے وقت میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ صرف چند ہاتھوں میں محدود ہو کر رہ جائے گا, اور ایک مخصوص طبقہ آسائش و تعیشات اور لذت و سرور کی کیفیات میں مبتلا ہو کر دوسرے مخصوص طبقے کا استحصال کرے گا۔

اور یقیناً ابھی تک کے جاری عالمی اقتصادی بحران کے دوران یہ سب کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
   بحرحال باقی دنیا کو چھوڑ کر اگر ہم اپنی بات کریں تو ہمارے ہاں اس سرمایہ دارانہ نظام کے اس بگاڑ اور  تعفن سے پھیلتی تباہی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چوری, ڈکیتی, قتل و غارت گری اور دوسرے سماجی سطح کے بڑے بڑے جرائم اور مسائل کی بنیاد صرف اور صرف یہ معاشی مسائل, معاشی  ناہمواریاں اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہی ہے۔

جو آئے روز ہمارے سماجی و معاشی نظام کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ اب اگر ایک حق دار کو اس کا حق جائز طریقے سے نہیں ملے گا تو یقیناً وہ اس کرب اور تڑپ کے سبب ناجائز ذرائع اختیار کرنے بارے سوچنا شروع کر دے گا۔
 شاید ہمیں 73 سال سے روٹی کپڑا اور مکان کا چورن بھی اسی لیے بیچا جاتا رہا, کیونکہ 22 کروڑ کے نفوس میں صرف 10% کا طبقہ ہی ہمیشہ اختیار و اقتدار اور تمام وسائل پر قابض رہا۔

جب کہ 90% کا مظلوم, متوسط, غریب اور مزدور طبقے کا اصل مسئلہ پیٹ, روٹی اور تن ڈھانپنا ہی رکھا گیا۔ پھر یہی نہیں بیڈ گوورنس, ناقص پلاننگز اور نامناسب سہولیات و حفاظتی اقدامات  کے سبب کبھی سیلابوں میں مرنے والا بھی یہی استحصال زدہ طبقہ تھا اور کبھی ملبوں کے نیچے دب کر کچلے جانا بھی اسی کا مقدر ٹھہرا, کبھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے کا اعزاز بھی اسے ہی ملا,  اور کبھی فیکڑیوں میں زندہ جلنا بھی اسی کے نصیب میں لکھا تھا۔

یہاں تک کہ پولیس کے تشدد اور سیدھی گولیوں کا نشانہ بننے والوں سے لے کر بھوک, مفلسی, اور خراب معاشی حالات کے سبب خودکشیوں سے اپنی پھول جیسی زندگیوں کا  خاتمہ کرنے والوں تک ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ ہر طرح سے 10% کے استحصال کا نشانہ بننے والا یہی بڑا طبقہ تھا۔
  خیر اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں ایسا نہیں ہونا چاھیے تھا, کہ کچھ لوگ تو ارتکازِ دولت کر کے عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں اور کچھ لوگ ضروریاتِ زندگی سے بھی محروم رہ جائیں۔

ہمارا اسلام اجتماع و ارتکازِ دولت کا سخت مخالف ہے۔ اور سرمایے کو گردش میں لانے کا متقاضی ہے۔ لیکن وہ سرمائے کی فطری گردش کے حق میں ہے۔ سرمائے کی مصنوعی گردش جو سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے‘ اسلام کے نزدیک پسندیدہ نہیں, اس لیے اسلام نے اس حوالے اسے اپنے اصول طے کر دیے ہیں۔ اب اگر ہم حقیقی طور پر ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے میں سنجیدہ ہیں, تو ہمیں یقیناً اس سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا, اور اسلامی معاشی نظام کے سائے میں پناہ لینا ہو گی۔ ورنہ یہ سمجھ لینا چاھیے کہ دو کشتیوں کا سوار ہمیشہ سمندر برد ہی ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :