کیا اب عشق کے فیصلے گردنوں کی بنیاد پر ہوں گے؟

جمعرات 19 نومبر 2020

Umar Farooq

عمر فاروق

ملک محمد عمران حنیف "نیشنل بینک آف پاکستان قائد آباد" میں بینک مینیجر تھا، احمد نواز اسی بینک میں بطور گارڈ کام کررہا تھا، چار ماہ قبل اس کی ساتھی گارڈ سے کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی اور اس نے گارڈ کا گلا دبا کر اس کو مارنے کی کوشش کی، عمران کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے احمد نواز کو بینک سے نکال دیا، اس نے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کیا اور دوبارہ اسی بینک میں تعینات ہوگیا، یہ دوبارہ بحال ہوا تو اس کی حرکتیں انتہائی خراب تھیں، اس کا بینک اسٹاف کے ساتھ رویہ ٹھیک نہیں تھا، یہ بینک آنے جانے والے مہمانوں سے الجھ جاتا تھا، یہ ہر ایک کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتا، اس نے بینک مینیجر محمد عمران کے بھائی سے بھی جھگڑا کیا، اسے محمد عمران کی طرف سے بینک سے نکالے جانے کا بھی بہت غصہ تھا چناں چہ اس نے توہین رسالت کی آڑ میں"عمران پر فائر کھول دیا"، عمران کو شدید زخمی حالت میں ڈی ایچ کیو قائد آباد لایا گیا، وہاں سے ڈی ایچ کیو جوہر آباد منتقل کیا گیا بعد ازاں اسے لاہور بھی شفٹ کیا گیا مگر عمران کی جان نہ بچائی جاسکی اور یوں ایک اور بےگناہ کا قتل کردیا گیا.
ابتدائی تحقیقات کے بعد یہ بات واضح ہوچکی ہے"محمد عمران سے توہین رسالت کی آڑ میں برطرفی کا بدلہ لیا گیا ہے" یہ بات عیاں ہوچکی ہے" عمران کا تعلق اہلسنت سے ہے، اس نے گھر میں بچیوں کا مدرسہ بھی بنا رکھا ہے، یہ صدقہ خیرات بھی کرتا ہے، آپ اس کی فیس بک آئی ڈی پر پچھلے سالوں کا مواد نکال کر دیکھ لیں آپ کو اس پر توہین رسالت سے متعلقہ کچھ بھی نہیں ملے گا، محمد عمران کے ماموں کے دیے گئے بیان سے بھی اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے، وہ کہتے ہیں" میں حلفا کہتا ہوں ہم سچے عاشق رسول ہیں، ہمارا قادیانیوں سے کوئی تعلق نہیں، بینک گارڈ نے اپنی ذاتی رنجش کی بناء پر عمران کو گولی ماری ہے اور یہ خود کو بچانے کیلئے شو کررہا ہے کہ مقتول عاشق رسول نہیں تھا لہذا اس معاملے کی تحقیق کی جائے اور مجرم کو سزا دی جائے" جبکہ دوسری طرف احمد نواز کو پولیس گرفتار کرنے آئی تو اس نے اچھل اچھل کر نعرے لگانے شروع کردیے، چند نالائقوں کو پتا چلا یہ تو عاشق رسول ہے وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے، کوئی گلے ملنے کی کوشش کررہا ہے، کوئی ہاتھ چومنے کیلئے بیتاب ہے تو کوئی بوسہ دینے کیلئے، یہ اس ملک میں ہو کیا ہورہا ہے؟ کوئی بھی کسی کو ذاتی رنجش کی بناء پر قتل کردے، لوگ گستاخ کو قتل کرنے کیلئے عدالت پہنچ جاتے ہیں، یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ پر گستاخی کا الزام لگاکر موت کی بھینٹ اتار دیا جاتا ہے، آپ کسی کے دفتر کے دروازے پر درود والا پوسٹر لگادو، وہ اس پوسٹر کو غصے میں اتاردے تو اس کا قتل کردو، مجھے سمجھ نہیں آتی ہمارا عشق قتل کرنے تک ہی محدود کیوں ہوتا جارہا ہے؟ کیا قتل ہی عاشق رسول بننے کا طریقہ رہ گیا ہے؟ کیا لوگوں کی گردنیں اتارنا ہی عشق ہے؟ کیا اب لوگوں کے سروں کی بنیاد پر عشق کے فیصلے ہوں گے؟ گارڈ اپنے ایک بیان میں کہتا ہے" عمران نبیوں کو نہیں مانتا تھا، وہ کہتا تھا نبیوں کے بس میں کچھ نہیں ہے، وہ بیچارے ہیں، ان کو فارغ کرو، فرض پڑھو، ہمارا سنتوں سے کوئی تعلق نہیں" ہم فرض کرلیتے ہیں عمران نے ایسے ہی کہا ہوگا اگر وہ اللہ کے نبیوں کو نہیں مانتا تھا، وہ ان کو بیچارے اور بے بس کہتا تھا تب بھی یہ اللہ اور عمران کے درمیان کا معاملہ تھا، اللہ اس کو جو چاہے سزا دے، اللہ کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لینے کا حق اس گارڈ کو کس نے دیا ہے، کیا اللہ کے فیصلے خود کرنے بیٹھ جانا گستاخی نہیں ہے؟ کیا یہ سیدھا سادھا شرک نہیں ہے؟ اس دنیا میں ایک ارب اسی کروڑ مسلمان ہیں، مسلمانوں کے علاوہ اربوں  ایسے لوگ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرے سے تسلیم ہی  نہیں کرتے، اربوں لوگ خدا کے بھی منکر ہیں، اب آپ کس کس کو لٹائیں گے؟ کیا اس مسئلے کا حل سر اتارنا ہی ہے؟ بے شرمی کا مقام دیکھیں جو مذہب پیار، محبت، امن اور انسانیت دوستی کا درس دیتا ہے ہم اسی مذہب کے نام پر قتل پہ قتل کیے جارہے ہیں، ہر دوچار ماہ بعد کوئی نا کوئی غازی سر اٹھالیتا ہے، غازی صاحب کو شہرت بھی مل جاتی ہے اور عاشق رسول کا سرٹیفکیٹ بھی،حکومت اور ریاست کی نالائقی کو 21 توپوں کی سلامی جو توہین رسالت پر کچھ نہیں کرسکی، ریاست سے توہین رسالت کے قوانین پر عملدرآمد کروایا نہیں جاتا، یہ عوام کے سامنے بھی بے بس دکھائی دیتی ہے چناں چہ جو کام ریاست کے کرنے والے ہوتے ہیں وہ کام کوئی نا کوئی نالائق شخص آٹھ کر کردیتا ہے، حکومت کو بہرحال ایسے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے کہ توہین رسالت کا مرتکب نا تو سزا سے بچ سکے اور نا ہی کوئی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکے، اس سے کم ازکم بے گناہ تو بچے رہیں گے.
میں آپ سب سے بھی درخواست کرتا ہوں، آپ صاحب علم ہوسکتے ہیں، آپ پڑھے لکھے، سمجھدار اور سلجھے ہوئے انسان بھی ہوسکتے ہیں، ممکن ہے آپ سچے عاشق رسول بھی ہوں اور آپ کا ایمان بھی دوسروں سے مضبوط ہو، آپ کا عقیدہ پختہ اور شعور بھی کامل ہوسکتا ہے مگر اس کے باوجود آپ لوگوں سے عقائد جیسے موضوعات پر بحث نا کریں، آپ سے جتنا ہوسکے گریز کریں تاکہ کہیں یہ نا ہو آپ اتنے حساس معاملے پر کسی گدھے سے بحث کرکے اپنے بچے یتیم کروا بیٹھیں�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :