
اپنا گریبان
جمعرات 27 مئی 2021

عمر فاروق
ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے آباؤ اجداد کے زعم میں مبتلا رہتے ہیں، ہم یورپ کو اس چیز کے طعنے دیتے ہوئے نظر انداز کرجاتے ہیں کہ آخر ہمارے آباؤ اجداد نے بھی یہ سارے علوم کہیں سے سیکھے تھے، ان سے پہلے بھی دنیا میں بیشمار قومیں موجود تھیں جو کائنات اور اپنے اردگرد موجودات کو انتہائی غوروفکر سے دیکھ رہے تھے، علوم پر اپنی ملکیت کا دعوی کرتے ہم شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ عربوں نے یونانی علوم کو پڑھا اور ان سے فائدہ اٹھایا، بیرون کاراڈی واکس (Baron Carra de Vaux) کی مشہور کتاب اسلام کا ورثہ (The Legacy of Islam) 1931 میں شائع ہوئی مصنف عربوں کے کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں "مگر اس کے نزدیک ان کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ وہ یونانیوں کے شاگرد (Pupils of the Greeks) تھے" برٹرینڈرسل نے اپنی کتاب "ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی میں عربوں کو صرف ناقل (Transmitter) کا درجہ دیا جنہوں نے یونان کے علوم کو لے کر اس کو بذریعہ تراجم اپنی طرف منتقل کیا" منٹگمری واٹ لکھتا ہے "عربوں میں سائنسی خیالات پیدا ہونے کا محرک یونان تھا، عربوں نے یونانی ترجمے پڑھے اس کے بعد ان کے اندر سائنسی طرز فکر آیا" آپ کو اگر پھر بھی یقین نہ آئے تو آپ چند مثالیں ملاحظہ کرلیجئے" مسلمانوں سے پہلے بھی دنیا میں ماہرین فلکیات موجود تھے، ارسٹارکس (Aristarchus of Samos) قدیم یونان کا ماہر فلکیات تھا، اس کا انتقال 270 ق م میں ہوا، اس نے نظام شمسی کا مطالعہ کیا اور غالباً پہلی بار آفتاب مرکزی (Heliocentric) نظریہ پیش کیا یعنی سورج مرکز میں ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے، تاہم اس کے نظریہ کو لوگوں کے درمیان مقبولیت حاصل نہ ہوسکی، اس کے بعد بطلیموس (Ptolemy) پیدا ہوا، اس کا زمانہ دوسری صدی عیسوی ہے، بطلیموس نے اس کے برعکس زمین مرکزی(Geocentric) نظریہ پیش کیا یعنی زمین مرکز میں ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے، اسی طرح قدیم یونان میں ایک اعلی سائنسی ذہن بھی موجود تھا جس کو ساری دنیا ارشمیدس کے نام سے جانتی ہے، اس نے 260 ق م میں پہلی چرخی مشین ایجاد کی، قدیم یونان میں شاعروں اور آرٹسٹوں کے لئے سازگار ماحول موجود تھا جس کی وجہ سے اس زمانے میں کثرت سے شاعر اور آرٹسٹ پیدا ہوئے چناں چہ انتہائی وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ "ہماری طرف سے سائنسی علوم پر ملکیت کا دعوی ایک انتہائی مضحکہ خیز کوشش ہے" دوسرا ہمیں اس طرح کے دعوی کرتے وقت یہ یاد رکھنا چاہیے "علمی دنیا" فقط "علمی دنیا" ہوتی ہے، اس پر کسی کی کوئی ملکیت یا اجارہ داری نہیں ہوتی وگرنہ آج جو علوم ہم اپنے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ تو ہمارے خود کے ہے ہی نہیں؟ اور نہ ہی ہمارے آباؤ اجداد کا چرایا ہوا نصاب ہے اسے تو ویسٹرن ورلڈ نے صدیوں کی محنت کے بعد تشکیل دیا اور پوری دنیا کو مفت میں بانٹتا پھررہا ہے، اگر ہمیں اپنا علم چھن جانے یا چوری ہوجانے کا اتنا ہی گہرا صدمہ پہنچا ہے تو پھر آج کے مسلمان علم سے اتنا دور کیوں بھاگتے ہیں، چوری کیے بغیر سارے علوم تک ہمیں رسائی حاصل ہے پھر ہم یورپ سے سیکھ کر ان سے آگے کیوں نہیں نکل جاتے؟ پوری کی پوری اسلامی(حقیقت بھی یہی کہ مسلم ورلڈ کی اکثریت کو سائنس وٹیکنالوجی سے دور دور تک واسطہ نہیں) دنیا انتہائی نالائق اور سست ہے، ہماری حکومتیں علم کی سرپرستی کرنے کے بجائے بارود اور بموں پر سارا بجٹ خرچ کردیتی ہیں، علم سے ہمارا دور دور تک کا واسطہ نہیں مگر ملکیت کے دعوی کرتے ہم تھکتے نہیں، یورپ کو چور کہنے کیلئے تو تیار ہیں مگر اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے�
(جاری ہے)
�
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمر فاروق کے کالمز
-
حقیقت کا متلاشی عام ذہن
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
حقیقی اسلام کی تلاش!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
کیا شیطان بے قصور ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
"عالم اسلام کے جید علماء بھی نرالے ہیں"
منگل 4 جنوری 2022
-
خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی اصل مسئلہ نہیں! ۔ آخری قسط
منگل 7 دسمبر 2021
-
خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی اصل مسئلہ نہیں!۔ قسط نمبر1
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
والدین غلط بھی ہوسکتے ہیں !
پیر 22 نومبر 2021
-
ہم اتنے شدت پسند کیوں ہیں؟ ۔ آخری قسط
بدھ 29 ستمبر 2021
عمر فاروق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.