کتابیں پڑھنے کا نقصان

جمعرات 28 مئی 2020

Usama Khalid

اُسامہ خالد

حضرت عمر کے دورِ خلافت میں مصر کے عوام جب ایک دوشیزہ کو دریائے نیل کے نام قربان کرنے چلے تو عمرو بن العاص نے یہ کہہ کر روک دیا کہ اسلام فرسودہ روایات سے منع کرتا ہے۔ خلیفہ کے نام خط لکھ بھیجا کہ نیل سوکھ رہا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ کنواری لڑکی کا خون نیل کے نام نہ بہایا جائے تو یہ جاری نہیں ہوتا۔ میں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ آپ کا کیا حکم ہے؟ عُمر نے جواباً کہا، تم نے درست فیصلہ کیا۔

اسلام فرسودہ اور باطل ثقافتی روایات کو سختی سے معدوم کرتا ہے۔ میرا رقعہ نیل میں دبا دو۔ رقعے میں لکھ بھیجا کہ اے نیل، اگر تُو اپنی مرضی کا مالک ہے تو جو چاہے کر۔ اگر اللہ کے حکم سے جاری ہوتا ہے تو جاری ہو جا۔ نیل جاری ہو گیا۔ دین نے ہزاروں سالوں پرانی روایت کو کاٹ پھینکا۔

(جاری ہے)


 ہم مسلمان ہیں۔ قرآن کو خدا کا کلام جانتے ہیں۔ اس کے ہر حرف کو اس طرح سچا مانتے ہیں جس طرح اپنی ولدیت پر یقین رکھتے ہیں، جس طرح سورج کے مشرق سے طلوع کو جانتے ہیں، جس طرح خدا کے ایک ہونے کو مانتے ہیں۔

قرآن میں اللہ برملا کہتا ہے کہ ایک کثیر تعداد ہے جو اس قرآن کو پڑھ کر گمراہ ہو جائے گی۔ جی ہاں، وہ کتاب کہ جس کا نام ہدایت ہے، جس کا مقصد راہ راست دکھانا ہے، جس کی حقیقت سے انکار عین کفر ہے، اُس کو پڑھ کر کثیر تعداد میں لوگ گمراہ ہو جائیں گے۔ خدا خودکہہ رہا ہے کہ ایک کثیر تعداد گمراہ ہو گی اور ایک کثیر تعداد ہدایت پا لے گی، اور گمراہ وہی ہوں گے جو فاسق ہیں۔

اور یقین جانیے، ہم نے گمراہ ہوتے لوگوں کو دیکھا ہے، پڑھا ہے، سُنا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی چائے کی پیالی بھری رہتی ہے۔ یہ مزید چائے برداشت نہیں کر سکتے۔ انہیں مزید فہم ہضم نہیں ہوتا۔ یہ خود کو علامہ جانتے ہیں۔ یہ کچھ بھی نیا سیکھنے کو تیار نہیں ہیں، اور اپنی معلومات کو کوہِ طور سے بلند جانتے ہیں۔یہ معلومات کے غنی ہیں مگر علم سے نا آشنا ہیں۔

یہ سمجھتے ہیں آدم کو سجدہ چند چیزوں کا نام پتہ ہونے کی وجہ سے کیا گیا۔ یہ جانتے ہی نہیں کہ سجدہ پہلے ہوا، چیزوں کے نام بعد میں سیکھنے کو ملے۔ اگر علم ہی آدم کی بڑائی کی وجہ ہے تو پھر ابلیس کے علم کا مقام کیوں نہیں؟
 مومن کی پہچان اس کی نمازیں ہیں نہ اس کا علم۔ مومن کی پہچان اُس کے اخلاق ہیں، ادب ہے، تسلیم و رضا ہے۔ اگر کتابیں سب کچھ ہوتیں، تو خدا کتابیں بھیجتا، نبی نہیں۔

خدا نے نبی سوا لاکھ بھیج دیے، اور کتابیں صرف چار؟ وہ بھی انبیاء کی تصدیق کے لیے؟ یہ کیا ماجرا ہے؟ جان لیجئے، علم کتابوں سے نہیں، استادوں سے آتا ہے۔ اُستاد صاحبِ نظر ہو تو رُومی و اقبال بنا دیتا ہے، اُستاد صاحبِ معلومات ہو تو جعلی پیر کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ خدا خود بار بار کہتا ہے جب کچھ سمجھ نہ آئے تو اہلِ ذکر سے سوال کرو۔ بڑے بتاتے ہیں یہ اہلِ ذکر اللہ والے ہیں۔

اور اللہ والے وہ ہیں، جنہیں دیکھ کر اللہ نظر آجائے، یعنی اللہ یاد آ جائے، عرفان حاصل ہو، جہل سے پناہ ملے۔
 ہمارے ملک میں، ہماری قوم میں شناخت کا سنگین بحران ہے۔ ہم کبھی عربوں میں، کبھی ترکوں میں، کبھی افغان تو کبھی ہندوستان میں شناخت تلاش کرتے ہیں۔ ہم اپنی علاقائی تہذیب کو مذہب کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں، اور جس قدر جی چاہتا ہے، دین اوڑھ لیتے ہیں۔

داڑھی رکھنے کو عرب کی ثقافت کہہ کر اس سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ روشن خیال بن کر کبھی پدر شاہی کے خلاف ہو جاتے ہیں، کبھی مذہب کو ثقافت کا محدود عنصر گردانتے ہیں۔ ہم مولوی کے خلاف ہیں کہ وہ تقلید کی بات کرتا ہے، مگر اُن قبائلی اور پاکستان مخالف تحریکوں کے حقوق کے علمبردار ہیں جو اپنی پرانی غیر اسلامی اور غیر انسانی روایات کی بقا چاہتی ہیں۔

 ثقافت و دین کا کوئی تقابل نہیں ہے۔ ثقافت کا جنم معاشرے کے حکمران طبقوں کے گھروں میں ہوا کرتا ہے۔ غریب پیوند زدہ کپڑا پہنے تو پینڈو جبکہ امیر پیوند زدہ پہنے تو فیشنی کہلاتا ہے۔ امیری تمام عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ امیروں کے گھروں کے کملے بھی سیانے کہلاتے ہیں۔ (امیری سے مراد معاشی امیری کے بجائے معاشرتی حکمرانی لی جائے)۔ شرافت، رسم و رواج، درست و صحیح، ہر شے کی تعریف حکمران کہ ہاتھ ہے۔

ایلیٹ جو کہہ دے وہی قانون ہے، وہی ثقافت ہے۔ ثقافت کی بنیاد ہمیشہ جہالت رہی ہے۔
 کسی بھی نبی نے کسی بھی دور میں جب خدا کا پیغام پہنچایا، ثقافت کے علمبرداروں نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ ہمارے آباء تمہاری بات کے برخلاف تھے، سو ہم پر تمہاری مخالفت لازم ہے۔
 دین کی بنیاد ڈیوائن سورس ہے، یعنی دین خدا کی طرف سے ہے، روایت اور ثقافت کی بنیاد جہالت ہے۔

یہ درست ہے کہ ثقافتیں وقت کے ساتھ ساتھ بہتری کی طرف جاتی ہیں، غلام آقاؤں کو زیر کر کے نئے طور متعارف کراتے رہتے ہیں، مگر ہزاروں سال پرانی ثقافتیں بہر کیف خامیوں سے بھری رہتی ہیں۔ دین ثقافتوں کے خلاف نہیں، دین کا ثقافتوں سے مقابلہ ہی نہیں، دین شجرِ ممنوعہ کے حکم جیسا ہے، جو چاہو کرو، بس یہ پھل نہیں کھانا۔ جہاں رہتے ہو، جن اطوار پر جیتے ہو، جیتے رہو، بس دین سے متصادم حرکتوں کو چھوڑ دو۔

 ہر ثقافت بہر حال ایلیٹ کے زیرِ سایہ پروان چڑھتی ہے۔ یہ معاشی، مذہبی، یا علمی ایلیٹ اپنی بقاء کے لئے ثقافت کو خدائی احکام سے بھی زیادہ پاکیزہ گردانتی ہے۔ آپ ہماری طرح بے ریش ہوں، خیر ہے، آپ بغیر رسموں کے شادی کریں، آپ معاشرے میں رہنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔ ہندو ثقافت بہر حال برہمن کے گرد گھومتی ہے۔ شودر جانوروں سے بدتر سمجھا جاتا ہے۔

عورت کی حیثیت بے جا ہے۔ بیوہ ہو گئی تو مردے کے ساتھ جلائی جائے گی۔ یا ترویج کے بعد، ہمیشہ بیوہ رہے گی۔ بہر کیف ایسے علاقے اور قومیں پاکستان میں آباد ہیں جن کو اپنی ثقافت اپنے دین سے زیادہ عزیز ہے۔ جہاں مختاراں مائی اور ایسے بے شمار فیصلے ببانگِ دہل، آج بھی جاری ہیں۔ جہاں ثقافت عورت کو تعلیم اور ووٹ سے محروم رکھتی ہے۔ اور یہ سب صرف ہندوؤں اور پاکستانی قوموں میں ہی نہیں ہے، یہ سب عرب میں بھی موجود رہا ہے، انگریزوں میں بھی رہا ہے، اور آج بھی موجود ہے۔

حیرت اُن افراد پر ہے جو فیمنزم کے نام پر بھی آواز بلند کرتے ہیں اور ثقافت کے نام پر بھی۔ یعنی عورت کو برہنہ باہر نکلنے کی اجازت بھی دینے پر بضد ہیں، اور عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنے والوں کے بھی ساتھ ہیں۔ یہ مولوی کے خلاف حدیث اور قرآن بھی لے آتے ہیں، اور اسلام کے خلاف مولوی کے طور طریقوں کا پرچار بھی کرتے ہیں۔ یہ معلومات کے غنی ہیں، مگر علم سے نا آشنا ہیں۔

 صرف کتابیں پڑھ لینا علم و فہم کی دلیل نہیں ہے۔ بغیر استادِ برحق فقط کتابیں پڑھنے کا نقصان یہ ہے کہ آدمی خود کو عقلِ کُل سمجھ بیٹھتا ہے، دائیں اور بائیں ہاتھ کی بحث میں اُلجھا رہتا ہے، معلومات کو علم اور دروغ گوئی کو صاف گوئی گردانتا ہے۔ آدمی قرآن پڑھ کر بھی گمراہ ہو جاتا ہے۔ آدمی آدمی رہ جاتا ہے، مسجودِ ملائکہ نہیں بن پاتا ہے۔ علم کتابوں سے نہیں، استادوں سے آتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :