کرپشن ایک موزی مرض ۔۔

پیر 30 نومبر 2020

 Usman Bashir

عثمان بشیر

کرپشن کا لفظ بظاہر تو چھوٹا معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی وسعت کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ کرپشن کی خطرناک جڑیں پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ہر ترقی یافتہ ملک میں پائی جاتی ہیں۔ ایک اچھی حکومت کو چلانے کے ساتھ ساتھ اس میں توازن بھی ضروری ہوتا ہےجو کرپشن کے خاتمے پر ہی ممکن ہوتا ہے ۔ اس کو ختم کئے بغیر کوئی ملک بھی ترقی نہیں کر سکتا۔

کرپشن کے زیادہ اثرات غریب طبقے  پر پڑتے ہیں، جب کرپشن کی وجہ ہےچیزیں مہنگی ہوتی ہیں اور غریب کی پہنچ سے باہر ہوتی ہیں تب غریب بلا واسطہ مارا جاتاہے اور اس وجہ سے غریب غربت کی چکی میں پہلے ہی پِس رہا ہوتا ہے اور اسکا باقی ماندہ کرپشن پورا کر دیتی ہے ۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 5-1 ٹریلین کی سالانہ کرپشن ہوتی ہے جوکہ دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا دو فیصد بنتی ہے اوریہ کرپشن عالمی امداد سے زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کو آزاد ہوئے 73 سال کا عرصہ بیت چکا ہے، اس مسافت میں کرپٹ مافیہ کی وجہ سے نہ ملک میں سیاسی استحکام آ سکا اور نہ ہی اس کا خاتمہ ہو سکا ۔پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈرز ، منتخب نمائندے اور دوسرے بڑےہاتھی،  انکا کسی نہ کسی واسطے سے ملکی اداروں میں اثرو رسوخ ہوتا ہے۔ جس دن انکایہ  اثر ختم ہوا اور ساتھ ساتھ نیب ایک آزاد اور خود مختار ادارہ بنا تب ملکی ترقی کا سفرشروع ہو گا ۔

کرپٹ سیاستدان غریبوں کو ہتھیار بنا کر طاقت میں آ کر اِن کا ہی خون چوستے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کرپٹ سرکاری اہلکار وہ چوہے ہیں جو سرکاری اداروں کو خستہ حال بنانے کے بعد یا ٹرانسفرکروا لیتے ہیں یا ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔ میرےعلاقے میں گزشتہ مہینے سرکاری ٹھیکے میں دس لاکھ کا چونا لگایا گیا اور یہ چونا بظاہر نظر بھی آ رہا تھا لیکن اس کے باوجود نہ تو اس ادارے میں کسی اعلی افسر کے سر پر جوں رینگی اور نہ ہی انتظامیہ کو تکلیف پہنچی ۔

پہنچتی بھی کیسے  پیسہ کون سا انکے باپ کی جاگیرتھی ۔ یہ تو عوام کا حق تھا جو سر عام پامال کیا گیا ۔اخلاقی و قانونی پستی کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ پاکستان بھر میں جتنے بھی ترقیاتی منصوبہ جات سالانہ بجٹ میں منظور ہوتےہیں اُن تمام منصوبہ جات کے ٹینڈر ز تا تکمیل منصوبہ تک ہونے والے تمام مراحل میں سرعام سرکاری رشوت کے نرخ مقرر ہیں ۔ اس ملک کا ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ جوجتنا بڑا کرپٹ ہوگا اس کو اتنے ہی بڑے عہدے پر تعینات کیا جائے گا ۔

اگر ہم صحت کے نظام کا جائزہ لیں تو ہمیں وہاں بھی کالی بھیٹریں ملیں گی جن کی بدولت صحت کاادارہ تباہ ہو چکا ہے۔ پاکستان کا تھانہ کلچر کرپشن کی ایک دلدل اور زندہ مثال ہے۔تھانے میں سر عام رشوت اور کرپشن کا بازار گرم ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایک غریب آدمی اس ڈر سے اپنے لئے انصاف کی اپیل نہیں کرتا کہ اسکی جیب کو تھانے میں خطرہ ہوتا ہے۔ کرپشن اور مافیہ کا خاتمہ حکومت کا اولین فرض ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ ذراالگ ہے ۔

کرپٹ لوگوں کی ہی حکومت پر اجارہ داری ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ سخت فیصلوں سے ہی قومیں بنتی ہیں۔ امریکہ اور ایران ایک دوسرےکے سخت ترین دشمن ہیں۔ 2018میں امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں مذید سخت کیں تو ایرانی قیاد ت نے امریکہ کے آگے سرجھکانے کی بجائے ملک میں اقتصادی وار کی ایمرجنسی نافذ کر دی۔ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای نےاگست 2018میں دیگر امور کے ہمراہ سب سے اہم فیصلہ یہ کیاکہ اُنہوں نے کرپشن کی بناپر ایران کو ہونے والے نقصان سے بچانے کے لیے فوری طور پر ملک میں اقتصادی امور سے وابستہ انقلابی عدالتیں قائم  کیں اور کرپشن کے تمام مقدمات کو اِن عدالتوں میں منتقل کر دیا۔

مذید براں تمام اینٹی کرپشن اداروں کو ملک بھرکے سرکاری اور نجی تجارتی اداروں میں کرپشن کو بلا امتیاز فوری طور پر ختم کرنے کا حکم دیا۔ایران میں مالی کرپشن کے حوالے سے تین نامور بزنس مینوں کو سرعام پھانسی دی گئی۔اِن تینوں ناموربز نس مینوں کا مقدمہ ’’زمین پر بدعنوانی پھیلانے کا جرم‘‘کے تحت چلا اور انہیں کرپشن کی بناپر سزائے موت دی گئی۔

ایرانی قوم اگر امریکہ جیسے طاقتور ملک سے پنجہ آزما ہے تواُس کے پس پردہ اُس کے حکمرانوں کا بے داغ کردار ہے اور سخت اقدامات ہیں۔اسکے برعکس پاکستان میں 73 سالوں سے موجود اس مرض کے خاتمے کے لئے کوئی قانونی کارروائی اور عملی اقدام نہیں ہوا جس کی وجہ سے لوگوں میں اس کا خوف پیدا ہو سکے ۔اسی وجہ سے ہی لوگ جوق در جوک اس دلدل میں مزید چھلانگیں لگا رہے ہیں ۔

پاکستان میں کرپشن کا نعرہ اور احتساب صرف انتقامی کاروائی تک محدود ہے ۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔یہ اضافہ 2019ء یعنی تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ہوا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2010سے 2018ء تک پاکستان میں کرپشن میں سال بہ سال کمی ہوتی رہی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے دوران کرپشن کے خلاف اقدامات کی وجہ سے پاکستان کا کرپشن انڈیکس بہتر ہوتا رہا۔


 پاکستان تحریک انصاف کی پانچ سالہ مدت اقتدار میں سے ابھی دوسال اور کچھ ماہ گزرے ہیں اور دو سال باقی ہیں۔اِن باقی ماندہ سالوں  میں اگر وزیر اعظم عمران خان ایران کی مانند کرپشن کے ناسور کو ختم کر دیں تو تمام سیاسی اور سرکاری اداروں کا قبلہ خود بخود درست ہوجائے گا کیونکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی فقط مالی کرپشن ہےاور یہ کرپشن ہر بُرائی اور بیڈ گورننس کی ماں ہے۔


ایک سوال جو ہمیں اپنے آپ سے کرنا ہوگا کہ کیا واقعی ہم کرپشن یا بدعنوانی کو اپنےمعاشرے سے ختم کرنا چاہتے ہیں؟ اور اگر اس کا جواب ہاں میں آجاتا ہے تو پھر جان لیجئے کہ آپ کو بلکل اسی طرح جیسے تبلیغ کرنے والوں کو کہا جاتا ہے کہ پہلے اپنے آپاور اپنے گھر سے تبلیغ شروع کرو اور سب سے پہلے اپنے آپ میں تبدیلی لاؤ اپنی عملی زندگی میں تبدیلی لاؤ۔


کرپشن کسی سیاسی داؤ پیچ سے ختم نہیں ہوسکتی اسے اپنے اندر سے اپنے کردار سے ختم کرنا ہوگا پھر کہیں جاکہ کوئی سچا سیاست دان جو اپنے آپ کو ہماری طرح لائن میں لگ کر اپنے کام کرانے کا مزاج رکھتا ہو وہ ہمارا صحیح معنوں میں رہنما بننے کا اہل ٹھہرےگا۔  پاکستان کا نام کرپشن کا ماتم کرنے سے اونچا نہیں ہوگا بلکہ کرپشن کو اپنے اندر سےختم کرنے سے روشن ہوگا اور یہ کام ہم سب فردِ واحد کی حیثیت میں کرینگے تو ہوگا۔
آئیں ہم مل کر آج ایک عہد کرتے ہیں کہ اس کا عمل اپنی ذات سے شروع کریں گےاور ہمارے معاشرے میں کالی بھیڑوں کا چہرہ بے نقاب کر کے پاکستان کی ترقی میں اپناکردار ادا کریں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :