سوال یہ بنتا ہے !!

جمعہ 9 اکتوبر 2020

 Usman Bashir

عثمان بشیر

کوئی بھی حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے اپنا منشور/ایجنڈا پیش کرتی ہے جس کو ہتھیار بنا کر عوام میں مقبولیت حاصل کی جاتی ہے۔ تحریک انصاف نے بھی کچھ ایسے ہی منشور حکومت میں آنے سے پہلے پیش کیے۔
کرپشن کا خاتمہ اورکرپشن کی رقم نکلوانا اس حکومت کا اہم ترین منشور تھا جس کو ہتھیار بنایا گیا۔ پچھلی حکومتوں پر الزام لگا کر اس کے ذریعے مقبولیت اچھی خاصی حاصل ہوئی۔

اب سوال یہ بنتا ہے کہ موجودہ حکومت کرپشن کا کتنا پیسہ وصول کر چکی ہے اور اسکا خاتمہ کس حد تک ہو چکا ہے یا اس منشور کو ایک سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے لے کر اب تک کے معاملات کو، اس کھیل کو پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ حکومت کرپشن کا ایک پیسہ بھی وصول نہیں کر پائی۔

(جاری ہے)

دوسری جانب ایک اور سوال یہ بنتا ہے کہ اگر کسی بندے پر کرپشن ثابت ہوئی ہے تو اس کو کون سی سزا دی گئی ہے؟ اگر ابھی تک حکومت کرپشن ثابت کرنے میں ناکام ہے تو کیوں ۔

؟؟
احتساب کا نعرہ ایک دوسرا مقبول ترین نعرہ ثابت ہوا۔ احتساب ہو یا انصاف اگر بِلا تفریق ہو تو اچھا ہوتا ہے اگر تفریق کا تاثر ہو تو تباہی ہوتی ہے۔ جب احتساب کمیشن کو خیبر پختونخوا میں تالے لگا دئیے جائیں اور احتساب صرف پنجاب اور سندھ تک محدود کر دیا جائے تو سوال تو بنتا ہے۔ کیا احتساب صرف اپوزیشن کے لئے ہی ہے ؟ پاکستان میں تقریر ہو یا امریکہ کی جنرل اسمبلی ہو، اپوزیشن کو ہی کیوں جیل میں بھیجنے کی بات ہوتی ہے۔

کیا یہ حکومت اپنے اتحادیوں کا احتساب کر سکتی ہے ؟ جب جہانگیر ترین کی جائیدادیں ، چینی سکینڈل کیس علیمہ خاتون کے اکاؤنٹس پر کوئی کاروائی نہ ہو اس کے برعکس فالودے والے کے اکاؤنٹس کو زرداری کے ساتھ منسلک کر کہ مجرم ٹھرایا جائے تب سوال توبنتا ہے؟
بیرونی قرضوں سے نجات اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے کے نعرے بھی بہت زور و شور سے لگائے گئے تھے۔

تقریری سن کر یہ لگتا تھا کہ اب پاکستان قرضے فراہم کرے گا لیکن ۔۔!! سوال یہاں بھی بنتا ہے , ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ قرضہ ان دو سالوں میں لیا گیا جو پچھلے اکہتر سالوں کی نسبت زیادہ ہے ان دو سالوں میں قرضوں کی بارش ہوئی۔ کیا اس منشور میں کھلا تضاد نظر نہیں آ رہا ۔۔؟
بات ہو منشور کی اور کابینہ کا ذکر نہ ہو کیسے ہو سکتا ہے۔ سوال یہاں بھی بنتا ہے ۔

خان صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پچھلی حکومتوں نے اپنی کابینہ کی تعداد اس لیے بڑھا رکھی ہے تاکہ ان کو کرپشن میں برابر موقع فراہم کیا جائے اور ملک کو لوٹا جائے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیاکہ میری حکومت میں کابینہ کی تعداد اٹھارہ ، بیس پر مشتمل ہوگی۔ اور اگر اب موجودہ کابینہ کے ارکان دیکھے جائیں تو ان کی تعداد پچاس سے زائد معلوم ہوتی ہے ۔

کیا خان صاحب نے ان کو بھی اپنے اپنے حصے کی کرپشن سمیٹنے کے لئے رکھا ہے۔۔؟
بات ہو سول نافرمانی کی  ، بجلی کے بِلوں کو آگ لگانے کی اور حکومت کو چیلنج کرنے کی تو حکومت اس میں بھی پیچھے نہیں ہے۔ اگر ہم آج کے بجلی کے بل اور سابقہ ادوار کے بلوں کا موازنہ کریں تو یقیناً ہمیں اس پر بھی تضاد ملے گا ۔ بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ کس لئے کیا گیا ۔

۔؟ سوال یہ بنتا ہے۔
کسی بھی ملک مافیہ اپنا کردار ہر صورت میں ادا کرتا ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس پر کنٹرول رکھے ۔ لیکن یہاں معاملات کچھ عجیب نظر آ رہے ہیں ملکی مافیہ حکومت کو کنٹرول کئے ہوئے ہے اور جب چاہے رسد کو کم کر کہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر لیتا ہے اور اپنے مرضی کے ریٹ منوا لیتا ہے۔ پٹرول پمپس والے پٹرول بند کر دیتے ہیں۔

کیا حکومت ان کو لگام ڈالنے میں ناکام ہے ۔۔؟سوال یہ بنتا ہے۔
ایک اور نعرہ جو ریاست مدینہ پر مشتمل تھا لگایا گیا ۔ نعرے لگانے پر کون کا ٹیکس ہے جو جی چاہے لگا لیے کون سا بل آتا لیکن ۔۔!اس پر سوال ضرور بنتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن کیس کا الزام سابقہ حکومت پر لگانا اور انکو قصور وار ٹھہرانا ، لیکن جب اپنے اقتدار میں آنے کے بعد سر عام لوگوں کو دہشت گردی کے نام پر انکے بچوں کے سامنے گولیوں سے چھلی کر دینا اور پھر چپ سادھ لینا ، تب سوال بنتا کہ ریاست مدینہ ایسی ہوتی ہے۔

؟ کیا ریاست مدینہ میں معصوم بچیوں کا ریپ ہوتا تھا۔؟ کیا ریاست مدینہ میں عورت کا ریپ ہوتا تھا؟ کیا ریاست مدینہ میں سر عام شراب کے نشے میں ایک امیر زادہ پولیس وارڈن کو کچل کر اگلے ہی دن با عزت بری ہوتا ۔؟
دوہری شہریت کا منشور بھی خاصہ مقبول جانا جاتا تھا ۔ پانامہ سکینڈل کیس ، اقاموں کابرآمد ہونا اورپھر یہ کہنا کہ دوہری شہریت والا ملک کا وفادار کیسے ہو سکتا ہے اور اسکو حکومت میں رہنے کا حق نہ دینا یہ سب باتیں اگر آج کی صورت حال سے منسلک کی جائیں تو یہاں بھی سوال بنتا ہے کہ موجودہ کابینہ میں بیٹھے سات وزیر جن کے پاس دوہری شہریت موجود ہے ان کو کب غدار ثابت کیا جائے گا اور ان کے خلاف کب مقدمات چلائے جائیں گے۔

۔؟
تحریک انصاف اقتدار سے پہلے احتجاج ، سڑکیں بند کرنا ، دھرنے دینا ، اس کو اپنا قانونی حق سمجھتے تھے لیکن اب سوال یہاں بھی بنتا ہے کہ موجودہ اپوزیشن جب دھرنے کا نام لیتی ہے تب ملکی نظم و ضبط اور کاروباری سرگرمیاں کیوں متاثر ہونے لگ پڑتی ہیں ۔۔؟
عمران خان نے اسٹبلشمنٹ کی کٹھ پتلی نہ بننے کا اور ان کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کا کہا تھا تو سوال اب یہاں بھی بنتا ہے کہ کیسے سینٹ چئیرمین کے الیکشن میں اپوزیشن اکثریت کے باوجود تحریک عدم اعتماد نہ لاسکی اور ممبر راتوں رات کیسے غائب ہو گئے ۔

؟؟
بات جب باجوہ صاحب کی ملازمت میں توسیع کی ہو تو سوال یہاں بھی بنتا ہے کہ کیسے اپوزیشن نے باجوہ صاحب کی توسیع میں ووٹ دئے۔۔؟
اگر ہم بات بے روزگاری کو ختم کرنے اور غریب طبقے کو پروموٹ کرنے کی کریں تو سوال یہاں بھی بنتا ہے کہ بے روزگاری کی شرح بجائے کم ہونے کے اوپر کیسے آئی ۔؟ غریب طبقہ اس مہنگائی کی چکی میں پس چکا ہے۔ کیوں سارا بوجھ غریب پر ڈالا جا رہا ہے ۔

کرونا ریلیف فنڈ کو بہانا بنا کر تیرہ تیرہ ہزار امداد دی گئی اور اگلے مہینے بجلی کےبِلوں کے ذریعے اس سے دو گنا رقم واپس لی گئی ۔۔ کیا ایسے بے روزگاری کو ختم اور غریب طبقے کو پروموٹ کیا جاتا ہے؟ کیا حکومت سرمایہ دار طبقے کی جیب سے پیسا نکلوانے میں ابھی تک فیل جا رہی ہے  تو سوال یہ بنتا ہے۔۔کسان طبقہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ھڈی کی ماند ہوتا ہے ۔

کیا حکومت کھاد اور زرعی چیزوں میں کسان طبقے کو پروموٹ کر رہی ہے ۔؟ ملکی تاریخ میں پہلی بار گندم کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے اسکا ذمہ دار کون؟ ادویات کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا اگر اسکو ہم سابقہ حکومت کی طرف لے جائیں تو ہمیں یہاں بھی کھلا تضاد ملے گا ۔۔
اب آخری سوال یہ بنتا ہے کہ یہ سیاسی انتقام اور یہ سب معاملات کب تک ایسے ہی چلیں گے۔۔۔۔۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :