پارلیمان کی ہار

پیر 29 مارچ 2021

Usman Zulfiqar Ali

عثمان ذوالفقار علی

گنا پاکستان بھر کی اہم فصل ہے۔ موسم سرما کے اختتام پر گنا کی فصل کاٹ لی جاتی ہے اور کسان گنے کو طے شدہ حکومتی نرخوں پر شگر ملوں کو بیچ دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ فصل کا استعمال گنے کا رس نکالنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ پاکستان بھر میں گنے کا رس بڑے شوق سے پیا جاتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں لوگ اس سے لطف اندوذ ہوتے ہیں۔

پاکستان کی گزشتہ ستر سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جاے تو پاکستان اپنے پاکستانیوں کے ہاتھوں بیشتر مرتبہ گنے کی طرح نچوڑا جا چکا ہے۔ کبھی وطن عزیز پر جاں بکھیرنے والے میرے عزیز ہم وطنو کی صدائیں بلند کرتے مملکت خداداد کا گلا گھونٹ دیتے ہیں تو کبھی یہی طاقتور کوارٹزذ جمہوریت کو آٹھاون-2-بی کی زد میں دیکر گنے کی طرح اسکا رس نکال دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

المیہ یہ ہے کہ وہ گنے کا رس جمہوریت کا قلعہ قمع کرنے والے نہیں بلکہ جمہوریت کا الاپ لاپنے والے جمہوری قائدین پی کر ڈکار دیتے ہیں اور شکر الحمداللہ بھی نہیں کہتے۔
ڈسکہ کی دھند کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے علاوہ ایوان بالا میں کیمرو کریسی کے جو واقعات پیش آے انکو دیکھ کے ایسا بلکل نہیں لگتا کہ اسلامی جمہوریہ کا پارلیمان ایک قانون ساذی کا ادارہ ہے بلکہ ایسا خیال آتا ہے کہ جیسے سبزی منڈی میں تازہ سبزی پر بولی لگائی جارہی ہو۔


ڈسکہ انتخابات میں دھند کی بدولت ہارنے والے قومی اسمبلی میں حکومت کو اکثریت کے باوجود مات دیتے ہیں اور فخر سے گنگناتے ہوے جاتے ہیں کہ "ایک زرداری سب پہ بھاری"۔ دوسری جانب پارلیمان میں مطلع صاف ہونے پر شکست کھانے والے اپنی ہار پر تلملا جاتے ہیں اور قومی سلامتی کی ایک کارنر میٹنگ کال کرتے ہوے اپوذیشن کے اراکین سے غلط ٹھپے لگواتے ہیں اور یوں ایوان بالا میں کم نمائندگی کے باوجود چیرمین و ڈپٹی چئیرمین بنوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔


ٹھریے ذرہ میں تو کیمرو کریسی کی بات کرنا ہی بھول گیا۔ کیمرہ تو سنا ہو گا آپ نے بلکہ دیکھا بھی ہو گا۔ جدید دنیا نے اب اس کو موبائل کی ذینت بھی بنا لیا ہے اور اس کے علاوہ اس کا استعمال خفیہ ریکارڈنگ کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ سینٹ انتخابات سے قبل پہ در پہ ویڈیوذ کا ملنا ہمارے قانون ساذ قائدین کی ویڈیو گرافی کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں بلکہ اس کا استعمال اب پولنگ بوتھ میں بھی کیا جانے لگا ہے تاکہ کوئی شخص راے راست سے بھٹک نہ جاے۔


اس سارے معاملے میں جیت جانے واے عناصر درج ذیل ہیں؛
1- حکومت
2-اپوذیشن
3-غیر جمہوری طاقتیں
تاہم اس سارے معاملے میں ہار جانے والوں میں صرف پارلیمان کا نام شامل ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کا دھرا معیار ہے۔ اپوذیشن تو اپوذیشن ٹھہری وزیراعظم بھی کسی سے کم نہیں۔ ایوان زیریں سے ووٹ آف کانفیڈنس کے بعد اظہار خیال کرتے ہوے اپوذیشن کو سینٹ انتخابات میں پیسہ استعمال کرنے کا طعنہ دینے کے بعد سینٹ میں کم نمائندگی کے باوجود اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چئیرمین بنانے میں کامیاب ہوگے۔

دوسری جانب قومی اسمبلی میں کم نمائندگی کے باوجود یوسف رضا گیلانی کو سینٹر منتخب کروانے کے بعد پی ڈی ایم قائد مریم نواذ حکومتی جماعت سے استفسار کرتی دکھائی دیں کے سینٹ میں نمایندگی کم ہونے کے باوجود آپ نے اپنا امیدوار میدان میں کیوں لایا۔ اور یہی دوہرا معیار پارلیمان کی ناقدری ہے اور نہ صرف یہ بلکہ پارلیمان کی ہار کی سب سے بڑی وجہ ہے۔


نہ جانے کب وہ دن آے گا کہ جب ہم اس ملک میں ہونے والی اعلی درجے کی سیاست میں انتخاب نمایندگی کی بنیادوں پر دیکھ سکیں گے؟ نہ جانے کب انتخابات سے قبل ہماری قومی سلامتی کی بیٹھک نہیں لگا کریں گی؟ نہ جانے کب ہمارے ایوان زیریں اور ایوان بالا میں نمایندگی کے مطابق اراکین منتخب ہو نگے؟ نہ جانے کب اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کا طریقہ آے گا؟ نہ جانے کب انکے ووٹ مسترد ہونا بند ہو نگے؟ نہ جانے کب؟ شاید میں نہیں آپ نہیں۔ ہمارے بچے دیکھیں گے۔
 سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر سوچیں تو جن اراکین کے ووٹ مسترد ہوتے ہیں اخلاقی سطح پر پارلیمان میں رہنے کا انہیں کوئی حق نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :