ناکام عالمی گورننس

منگل 25 مئی 2021

Usman Zulfiqar Ali

عثمان ذوالفقار علی

چند روذ قبل او آئی سی کا وزارت خارجہ کی سطح پر اجلاس منعقد ہوا۔ اجلااس میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف قراداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اجلاس میں پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک نے شمولیت اختیار کی اور سعودی عرب اجلاس کی صدارت کر رہا تھا۔
مختلف میڈیا آوٹلیٹس کی رپورٹنگ کے مطابق اب تک 227 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں بچے اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔

فلسطین کی 43 فیصد آبادی 0 سے 14 برس کی عمر کے درمیان ہے۔ گزشتہ ماہ رمضان کے آغاذ میں شیخ جراء سے شروع ہونے والی اسرائیلی ریاستی دھشت گردی نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ آیا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اسرائیلی دھشتگردی کی پر زور مذمت کرتے ہوے سڑکوں پر اختجاج کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)


 دوسری جانب اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے بھی اتوار کو اجلاس بلایا جس میں قرارداد تو پاس نہ ہو سکی مگر متفقہ طور پر اسرائیل اور حماس جو کہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی جماعت ہے، کو شدت کم کرنے کا کہا گیا ہے۔

تاہم قرارداد کی منظوری میں اہم رکاوٹ امریکہ بنا جو اسرائیلی جارحیت کو سیلف ڈیفنس یعنی ذاتی تخفظ قرار دیتا ہے. چین نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ میں چینی مندوب کا یہ کہنا تھا کہ ایک ملک کی وجہ سے سیکیورٹی کونسل یک آواذ نہ ہو سکی اور اس پر انہیں پچھتاوا رہے گا۔
مگر کیا فلسطین کے شہریوں کا حق ادا ہو گیا؟ کیا او آئی سی ممالک فلسطین کے لیے عملی اقدامات کر سکیں گے؟  کیا اقوام متحدہ اپنی ہی قراردادوں پر عمل کروا سکے گی ؟ یہ پہلا موقع نہیں کے اقوام متحدہ اپنی منظور شدہ قراردادوں پر عمل پیرا نہ کروا سکے بلکہ اس سے قبل کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ مکمل ناکام ہو کر بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔

یہ سوال محض چند سوال نہیں بلکہ ناکام بین الاقوامی گورننس پر لگے سیاہ دبے ہیں جو کہ اس نظام میں رہتے ہوے کبھی نہیں دھل سکتے۔ دوسری جانب او آئی سی بھی ناکام ہو چکی ہے۔ وہ او آئی سی جس کے دائرہ کار میں تنظیم سازی کا مقصد ہی فلسطینیوں کے حقوق کا تخفظ کرنا تھا آج فلسطین کے لوگوں کو اسرائیلی جارحیت کے رحم و کرم پر چھوڑ چکی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بھی او آئی سی ریاستیں اپنے ریاستی مفادات کی خاطر کوئی اقدام نہ اٹھا سکیں۔


او آئی سی کے چند ممالک تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی قائم کر چکے ہیں اور اس امر میں اپنے قومی مفاد میں سفارتی اور تجارتی بنیادوں پر تعاون بڑھا بھی رہی ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اہنے بیان میں اسرائیلی جارحیت کی پر ذور مذمت ضرور کی مگر کیا اتنا کرنا کافی تھا؟ ترکی عالم اسلام کا پہلا ملک تھا جس نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کیا تھا۔

  آج بھی ترکی صیہونی ریاست کے ساتھ اپنی تجارت کو بحال رکھے ہوے ہے۔  اسرائیل کی ترکی کے ساتھ درآمدات سال 2020 میں3 فیصد تک بڑھی اور رواں سال مارچ تک ترکی کی اسرائیل کے ساتھ برآمدات  432.79 ملین امریکی ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔
سعودی عرب او آئی سی کا سربراہ ملک ہے۔ سعودی عرب کو عالم اسلام میں رہنما کی حیثیت دی جاتی ہے کیونکہ سعودی عرب وہ حطہ ہے جہاں دین اسلام کا آغاذ ہوا اسلام کی 2 بڑی مساجد بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی  وہاں واقع ہیں۔

اس سب کے علاوہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ سمندی راستے سے منسلک ہونے کی وجہ سے فلسطینی ریاستی تنازعہ میں اہم جیو پولیٹیکل عنصر تصور کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کا 10 سالہ منصوبہ 2030 جس کے مطابق سعودی عرب تبوک میں دبئی کی طرذ پہ ایک نیا شہر "نیوم" کے نام سے تعمیر کر رہا ہے۔ یہاں توجہ طلب موضوع یہ ہے کہ تبوک اسرائیل سے تقریبا 25 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور اسرائیل تبوک نیا نام نیوم میں کسی بھی وقت اپنی جارحیت کر کے سعودی سرمایہ کاری کا بیڑہ غرق کر سکتا ہے۔

اس سب کے علاوہ سعودی عرب کو مستقبل میں اسرئیل سے نیوم میں سرمایہ کاری کی امید بھی ہے۔ اس سب کی وجہ سے سعودی عرب کبھی بھی فلسطینیوں کے حقوق کے لیے موثر حکمت عملی تیار نہیں کر سکتا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ڈپلومیٹک مشن میں ترکی نے بھی شمولیت ضرور اختیار کی مگر بندوق محض پاکستان کے کاندھے ہر رکھی گئی ہے۔

ترکی پاکستان تیونس اور فلسطین کے وزیر خارجہ نے ایک ہی طیارے سے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لیے امریکہ کے لیے پرواذ پکڑی مگر ترکی پاکستان کی کمر کے پیچھے چھپنے اور فیس سیونگ کی پالیسی کھیل رہا ہے۔ ترکی بظاہر کبھی اسرائیل کے ساتھ تجارتی حجم کم نہیں ہونے دے گا۔
دوسری جانب پاکستان کے پاس کھونے کے لیے ماسواے حکومت اور حکومتی عہدیداروں کی جان کے کچھ بھی نہیں۔

پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے پاکستان کی اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی تجارت نہیں جس کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ اس کے علاوہ پاکستان اسرائیل کے خلاف آواز اٹھا کر دنیا کی نظریں مقبوضہ کشمیر کی طرف بھی مرکوذ کرنا چاھتا ہے کیونکہ نریند مودی بھی اسرائیلی وزیراعظم کی طرح مقبوضہ کشمیر میں نو آبادکاریاں کر کے ڈیموگرافی بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔


دوسری جانب وزیر خارجہ کا دیگر وزراے خارجہ کے ساتھ اقوام متحدہ کا سفر 1974 کی یاد دلاتا ہے کہ جب مصر کے صدر بشار الاسد اور لیبیہ کے صدر معمر قذافی ایک ہی طیارے میں کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور آے تھے۔ اس کانفرنس کے میزبان اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے اور شاہ فیصل نے بھی شرکت کی تھی۔ بعد اذں ان سب حکمرانوں کا انجام اور انکے خلاف ہونے والی ساذشیں تاریخ میں واضح عیاں ہیں۔ اس وقت بھی اور آج بھی ہاتھی ( ذوالفقاعلی بھٹو کے بقول امریکہ ) اسرائیل کے ساتھ تھا اور ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو 735 ملین ڈلرز کے ہتھیاروں کی سیل کی منظوری بھی دے دی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :