غلط کہاں ہوا؟

پیر 10 جنوری 2022

Usman Zulfiqar Ali

عثمان ذوالفقار علی

گزشتہ بیشتر دہائیوں سے مری کو سیاحتی مقامات میں فضیلت حاصل رہی ہے۔ سردیوں میں شاید پاکستان کا واحد مقام یے جہاں لوگ برف کی چادر دیکھنے ملک کے گرم علاقوں سے گھومنے آتے ہیں۔ گرمیوں میں بھی چوٹیوں کا نظارا کرنے اور معتدل موسم کا لطف اٹھانے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے، مگر سرما تو سرما ٹھہرا جس کی آمد مقامی اور غیر مقامی لوگوں کے لیے برف کے بعد نکلنے والی تابندہ کرن بن کر آتا ہے۔


 ہوا کیا کہ محکمہ موسمیات نے 5 سے 7 جنوری 2022 میں ملکہ کوہسار میں شدید برفانی طوفان کا الرٹ جاری کا تھا۔ پاکستان بھر سے شہریوں نے اہل وعیال کو ساتھ لیا جس میں بچے بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھیں، برفیلے پہاڑوں کے دامن میں پہنچ گے۔ سب بدستور چل رہا تھا، حکومت بھی خوش تھی۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر اطلاعات مری میں ایک لاکھ گاڑی آجانے پر سوشل میڈیا پر شادیانے بجا رہے تھے اور کہ رہے تھے کہ دیوالیہ نکلی معیشت کے لیے سیاحت خوش آئند بات ہے۔


سب لوگ مری پہنچے تو چھوٹی سی چوٹی جس کو دہائیوں سے ایک ہی طرز میں دیکھا جا سکتا ہے، نے اپنے اندر مزید شہریوں کو سمانے اے انکار کر دیا۔ حیران مت ہوں، ضلعی حکومت اور حکمرانوں کو پھر بھی کچھ ادراک نہ  ہو اکا کہ معاملہ کیا یے۔ اب 1 لاکھ گاڑی جو شہر کے اندر داخل ہو چکی ہے اس نے سر بھی ڈھانپنا ہے۔ یہ طوفان انہیں سردی سے لقمہ اجل بھی بنا سکتا ہے۔

مزید آنے والوں کے لیے ایکسپریس وے کو بند کر دیا گیا مگر رعایا بھی تو حکمرانوں کا عکس ہے۔ لوگ برف دیکھنے کے لیے مسلسل ضد پر اڑے رہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ' غلط کہاں ہوا'؟
7 جنوری کی شام اور 8 جنوری کو مری میں ریکارڈ برف باری ہوئی اور درجہ حرارت منفی 8 ڈگری تک گر گیا۔ مقامی لوگ تو اپنے حجروں میں مقیم ٹھہرے۔ غیر مقامی بے سر وسامان تھے کہاں جاتے۔

اوپر سے ستم ظریفی یہ کہ مری میں ہوٹل خالی ہونے کہ باوجود ٹھٹرتے ہوے بچوں کو چھت نہ مل سکا۔ اس کی وجہ یہ بھی نہیں تھی کہ برف اتنی جلدی زیادہ ہوگئی کہ وہ نکل نہ سکے۔ بلکہ بھیڑیوں کی کھال میں ہوٹل مالکان نے مصیبت زدہ سیاحوں کا خون نچوڑنے کے لیے کرائے میں ہوش ربا اضافہ کر دیا۔ ڈان ٹی وی کے رپورٹر نے تحقیقات کے بعد بتایا کہ 7 جنوری کی خونی شب مری میں ایک رات کے لیے کرایا 40 ہزار تک بھی وصول کیا جا رہا تھا۔

پھر تھانہ کوہسار کا اے ایس آئی معقول تنخواہ پہ 5 سے 7 خاندان کے لوگوں کے ساتھ دو کمرے کیسے رینٹ پر لے سکتا تھا۔
 استفسار تو یہ بنتا ہے کہ ان 22 لوگوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے۔ کچھ لوگ کاربن مانو آکسائیڈ کا بول رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے ٹھٹرتی ہوئی سردی کو قاتل قرار دے کر دوبارہ مری نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ مگر کیا کوئی اسلام آباد والوں سے بھی پوچھے گا یہ کہاں تھے؟ پھر ضلعی انتظامیہ وہ کس مرض کی دعا ہے؟ لوگ برف میں بے یارومددگار ٹھٹرتے ہوے جان دے گئے مگر انتظامیہ ہیٹر تاپتی بستر کی ذینت بنی رہی۔

ہفتے کی صبح وزیر داخلہ شیخ رشید بھی مری پہنچ گے۔ پھر فوج کو بھی بلا لیا۔ ریسکیو بھی کام کرنے آگیا۔ جب برف پوش گاڑیوں سے برف ہٹھائی تو پانی سر سے گزر چکا تھا۔
یہاں نکتہ یہ ہے کہ شارٹ ٹرم میں حکومت کیا کر سکتی تھی اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کے تحت کیا اقدامات اٹھا سکتی تھی۔ محکمہ موسمیات نے اگر الرٹ جاری کیا تھا تو لوگوں کو اتنی تعداد میں آنے نہیں دینا چاہیئے تھا۔

یہ ایکسپریس وے اس سے قبل بھی بند کی جا سکتی تھی۔ لوگوں کو موت کی وادی میں قدم رکھنے سے روکا جا سکتا تھا۔  پھر جو لوگ وہاں پھنس چکے تھے کیا مسلسل ان کی تلاش جاری رکھی گئی؟ پنجاب سنو کلیئرنس ڈیپارٹمنٹ نے راستے کھولنے کے لیے اقدامات رات بھر جاری رکھنے تھے، جو کہ نہیں رکھے گئے۔ عینی شاہدین تو ان کی موجودگی کا کعئی ثبوت نہیں دیتے۔ اور جو فوج صبح دستیاب ہوئی انہیں رات کو بھی کال کیا جا سکتا تھا۔

ظلم تو یہ ہے کہ مملکت کے وزیر داخلہ بھی اگلی صبح اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے تھے۔ ملٹری کالج، اے پی ایس وغیرہ بعد میں پناہ گاہیں اور کیمپ بن سکتے ہیں، ہفتے کی رات نہیں بن سکتے تھے؟ ریاست ہیلی کاپٹر کی ذریعے سے ائیر لفٹ آپریشن کر سکتی تھی مگر ترجیخ نہ دی گئی۔ چاھے جتنی بھی برف باری تھی ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کر سکتی تھی۔ مگر حکمراں حضرات ہیٹر کی گرمی  میں گرم لحاف لیے کرسی سنبھالنے کے سپنے دیکھ رہے تھے۔


قصور وار تو وہ بھی ہیں جو ماضی میں اقتدار کی کی لذتیں سمیٹنے میں مصروف رہے اور وہ بھی جو ایوانوں میں حال مقیم ہیں۔
سابق وزیراعظم ہیلی کاپٹر کے ذریعے مری میں ناشتہ منگوایا کرتے تھے تو حاکم وقت اپنے دوستوں کو مری میں ہوٹل تعمیر کرنے کی سہولیات فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ماضی میں کسی حکومت نے لانگ ٹرم منصوبہ بندی نہیں کی۔ مری کے علاوہ بھی دیگر ساحتی مقامات موجود ہیں۔

ان مقامات کو بھی تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں انفرا سٹرکچر سرے سے ہی نہیں ملتا۔ مشہور سیاحتی مقامات نیلم، تولی پیر، بنجوسہ لیک اور گنگا چوٹی جانے کے تمام راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کیوں نہ ان مراکز پر انفراسٹرکچر تعمیر کر کے لوگوں کی ترجیحات کو صرف مری سے نکال کر دیگر علاقوں میں تقسیم کر دیا جاے۔

اسی طرح سوات، مالکنڈ اور کمراٹ ویلی کو بھی مزید ترقی کی ضرورت ہے، محض ٹنل کی تعمیر سے عوام سوات تک تو پہنچ سکتے ہیں مگر دیگر سیاحتی مقامات تک جانا انتہائی دشوار ہے۔
مری کی ضلعی انتظامیہ ناکام ہو چکی ہے۔ راتوں رات ریٹ لسٹ آسمان سے باتیں کرتی ہے مگر سابقہ دور میں وزیراعظم پاکستان کا حلقہ ہونے کے باوجود مارکیٹ کے جرائم کو کنٹرول نہیں کیا جاتا رہا۔

حالیہ حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے مہمات کا اجراء کیا مگر کیا ہمارے سیاحتی مقامات اتنی صلاحیت کے حامل ہیں؟
یہ ایک درست اپروچ ہے کہ دھشت گردی اور انتہاپسندی سے تنگ آئی ہوئی قوم سیاحت لیے مختلف مراکز کا رح کر رہی ہے۔ اور اسی کی مدد سے ہم معاشرے کی سود مند نشونما کر سکتے ہیں۔ ریاست ذمہ داری لے کر لانگ ٹرم منصوبہ بندی کے تحت سیاحت اور سیاحوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔ قانون کی بالادستی پہلی ترجیح ہونی چاھیئے۔ ورنہ وادی کوہسار جیسی پر لطف جگہ بھی موت کا گھاٹ بنتی رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :