آزاد کشمیر انتخابات

جمعہ 23 جولائی 2021

Usman Zulfiqar Ali

عثمان ذوالفقار علی

کشمیر محض چند پہاڑوں اور وادیوں کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک قدیم تہذیب کا نام ہے کہ جس نے ابھرتے ہوئے معاشرے میں ہر قدم پر ترقی سمیٹنے کا عزم بلند کئے رکھا ہے۔ قیام پاکستان و بھارت سے قبل یہ وادیوں کا مجموعہ سب سے محفوظ گوشہ تصور کیا جاتا تھا۔ جس میں تقسیم کے وقت ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے بچنے کیلئے لوگ پناہ گزیر ہوا کرتے تھے۔

غدر کے بعد اس وادی پر غاصبوں کی کالی نگاہوں نے اس کی قدر وقیمت پر شب خون مارا۔ اور وادی کے پر امن قبائل دو ٹکڑوں میں بٹ گے۔ وہ دو حصے آج ہندوستان اور پاکستان کے زیر انتظام ایک متنازعہ حیثیت سے بین الاقوامی نقشے پر موجود ہیں جو سخت بین الاقوامی قوانین کی زد میں آ کر آج جدید دنیا میں تیسرے درجے کے ممالک سے بھی پیچھے رہ چکے ہے۔

(جاری ہے)

ہندوستان نے اپنے قوانین میں تبدیلی لا کر کشمیر کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کرنے کی سازش رچا لی مگر اقوام عالم محض خاموش تماشائی بن کر نظارا کرتی رہیں۔

 
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 25 جولائی کو عام انتخابات منعقد کیے جا رہے ہیں۔جس میں آزاد کشمیر کی عوام کو اپنی فلاح وبہبود کے لیے نمائندے چننے کا اختیار دیا جائے گا۔ گزشتہ 7 دہائیوں میں آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کے طور پر مختلف نام سامنے آتے ہیں۔ جنھوں نے اپنے بڑے بھائی سے وفاداری تو نبھائی مگر خطہ کشمیر کو برادریوں اور ذات پات کی حد تک محدود کر دیا ہے۔

کیا کوئی باشعور شہری اس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ تکنیکی دور کے ان روشن ایام میں بھی آزاد کشمیر کے باسی سرداروں، راجپوتوں ،چودھریوں اور جاٹوں کی بنیاد پر اپنے ایمان کا استعمال کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خطے کو اس گول چکری میں گھما کر نہ صرف کشمیری قیادت نے  بلکہ بڑے بھائی پاکستان نے بھی اپنی دکان کو خوب چارچاند لگائے ہیں۔ 2010 میں مسلم لیگ ن کا  آزاد کشمیر میں قیام ہو یا تحریک انصاف کی آزاد کشمیر میں تنظیم سازی، تمام تر جوڑتوڑ برادریوں کے بڑوں کے نام پر کی جاتی ہے۔

میرٹ کے علمبردار پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے انتخابی مہم سے قبل خود بنی گالا بلا کر چند ایلیکٹ ایبلز کو سرخ اور ہرے جھنڈے پہنائے اور دیگر سیاسی جماعتوں سے انکی سیاسی طلاق کروا کر اپنی ٹیم تشکیل دی۔ بعدازاں فخر سے اعلان داغنے لگ گے کہ تحریک انصاف آزاد کشمیر میں حکومت قائم کرنے جا رہی ہے۔ دوسری جانب یہی سیاسی مہرے ہر پانچ برس بعد سیاسی وابستگی تبدیل کرتے اور بیانات بدلتے ہیں۔

اور اس سب سے بڑھ کر 76% لیٹریسی ریٹ والی قوم بھی انکی تائید کرتی، لبیک کہتی اسمبلیوں تک پہنچا آتی ہے۔
ہندوستان نے مکاری کے ساتھ کشمیر کی آزادانہ حیثیت کو بدل دیا۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کردیا گیا۔ کشمیر ہمیشہ سے متنازعہ علاقہ رہا ہے مگر آج 2021 میں بھی آزاد کشمیر کی کسی سیاسی جماعت کے پاس جموں و کشمیر کی آزادی اور استصواب رائے کے حوالے سے واضع حکمت عملی نہیں ہے۔

اور نہ کوئی سیاسی کارکن اس بات کا تقاضا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لوگوں کی پکار محض سیاسی تقرریوں سے لیکر گلیوں کو پکا کرنے تک ہے۔ ٹرانسفارمر اور کھمبوں تک کا اختیار سیاسی قیادت نے اپنے شکنجے میں دبا رکھا ہے۔ حالانکہ مندرجہ بالا اختیارات ذیلی سطح پر موجود بلدیاتی حکومت کے پاس ہونے چاھئیے۔ بہرحال بلدیاتی نظام  پاکستان میں کہاں جو آزادکشمیر میں ہوگا۔

مختلف حکومتوں کے وعدوں کے باوجود آج بھی ریاست ذیلی اداروں سے محروم ہے۔
ہر سیاسی دور میں وہی سیاسی قیادت کی پارٹی بدلنے کی وجہ سے آج بھی ریاست بدحال ہے اور قیادت مکمل طور پر نااہل ہوچکی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک فاضل ممبر حلقہ اپنے ہی علاقے میں گاڑی سمیت دریا میں گر کر جاں بحق ہوگئے۔ تمام تر ہمدردیاں انکے اہل خانہ کے ساتھ، مگر جس حلقے سے وہ بیشتر مرتبہ منتخب ہو چکے تھے کیا روڈ کے گرد باڑ لگوانا انکی ذمہ داری نہ تھی؟ ریاست انفراسٹرکچر کے لحاظ سے پست حالی کا شکار ہے۔

جو چوٹیاں اربوں روپے کی حامل ہیں وہاں جانا انتہائی کٹھن سفر ہے۔ مگر آزادکشمیر و پاکستان کے سیاسی بڑے آنکھیں موند کر اے سی کی ہوا لگوا رہے ہیں۔ ہر منصوبے میں کرپشن ہے۔ گریڈ 21 سے لیکر گریڈ 5 اور 6 تک ہر شخص بشمول سیاسی قیادت کمیشن خوری، رشوت ستانی اور بدعنوانی میں ملوث ہے۔ مگر نیب آزاد کشمیر میں نہیں آئے گی کیونکہ غیرت مند کشمیری اسکی ٹانگیں توڑ دیں گے۔

اور نہ ہی آزاد کشمیر کے قانونی ادارہ احتساب بیورو میں کچھ تبدیلیاں لے کر آئینگے۔
ایسا آخر کیوں ہے، کہ پاکستان کی حدود میں جمہوریت اور ووٹ کی عزت کی بات کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں حکومتی سطح پر کشمیر میں انتخابات میں ملوث دکھائی دیتی ہیں۔ اخلاقی سے لیکر مالی فنڈنگ اور مقتدر حلقوں کی دوڑ دھوپ آزاد کشمیر کے سیاسی منظر نامے کو خودکشی کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

ہر وہ جماعت جو پاکستان میں صاحب اقتدار ہوتی ہے، سرکاری مشینری سے ووٹ کی عزت کو سیاسی بدعنوانی کے سونامی میں بہا کر لے جاتی ہے۔ حالیہ دنوں وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور نے ایک جگہ حطاب میں کہا کہ ایک ایک ووٹ کے بدلے اربوں روپے کے پیکج دیں گے۔
 کیا یہ سیاسی اثرو رسوخ نہیں؟ لوگوں کو سرکاری مشینری کے استعمال سے ورغلایا جائے اور آزادانہ انتخابات پر قدغن لگائی جائے؟ پھر ڈسکہ میں ڈنکے کی چوٹ پر یذائڈنگ افسر اٹھوانے والے بھی شامل حال نظر آتے ہیں۔

جیسے پاکستان میں انتخابات شفاف نہیں ہوتے ویسے ہی آزاد کشمیر میں انتخابات کا معاملہ بھی پیچیدہ ہے۔ اور تصفیہ طلب بات یہ ہے کہ دونوں جگہوں پر مرکزی کردار ایک ہی ہے۔
آزاد کشمیر میں ریاستی و غیر ریاستی میڈیا انتہائی کمزور ہے۔ عوام علاقہ تک آگاہی کا اہم ذریعہ یعنی میڈیا آزاد کشمیر میں بے بس نظر آتا ہے۔ معاشرتی جرائم سے لے کر حکمران طبقے کی بے ضابطگیاں تک میڈیا کوریج سے محروم رہتی ہیں۔

درحقیقت اگر یہ کہا جائے کہ ریاست میں میڈیا کا کوئی سٹرکچر نہیں تو غلط نہ ہو گا۔ اخبارات مالکان اپنے ذاتی مفادات کے لیے تحقیقاتی جرنلزم کی دھجیاں بکھیرکر رکھ دیتے ہیں۔
اکیسویں صدی کو ایشیائی صدی گردانہ جاتا ہے۔ اس صدی میں ایشیا دنیا کو فرنٹ لائن پر لیڈ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آج اس صدی کی دو دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اگر پاکستان بشمول آزاد کشمیر اپنے انتخابی نظام کیلئے درست سمت متعین نہیں کرتا تو نہ صرف اس عالمی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا بلکہ کچلا بھی جائے گا۔

عوام کی رائے کو وقار دینے کی روایت قائم کرنے سے لے کر انھیں برادریوں سے نکل کر آزادانہ طور پر حق رائے دہی کا اظہار کرنے دینا ہی جمہوریت کی طرف بڑھتے ہوئے اقدامات میں سے ایک ہو گا۔ ورنہ یہ کشمیری قوم اپنی آزادی یا الحاق کے لیے استصواب رائے میں بھی برادری اور کنبے کو بنیاد جانیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :