حیا اور ایمان

اتوار 13 ستمبر 2020

Wajeeha Rubab Shahid

وجیہہ رباب شاہد

ابو جان ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ
کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔
بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے،  اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔

بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ بہر حال سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر پہنچے، وہ شخص وہیں موجود تھا۔۔
سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔
آج سے تم میرے مشیر خاص ہو،
دوسری رات بادشاہ کو پھر خواب آیا۔

(جاری ہے)


تو بادشاہ نے فوراً اس سفید پوش سے اس کی وجہ پوچھی کہ ایک زانی کیساتھ ایسا کیوں کرنے کا کہا آپ نے؟؟
سفید پوش نے کہا
اللّٰہ کو اسکا گناہ سخت نا پسند آیا، چونکہ اسکی موت کا وقت نہیں آیا تھا اسی لیے تم سے کہا گیا کہ اسے مشیر بنا لو، تاکہ وہ عیش میں پڑ جائے اور کبھی اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی نا مانگ سکے۔ کیوں کہ اسکی سزا آخرت میں طے کر دی گئی ہے۔

مرتے دم تک وہ عیش میں غرق رہے گا، بلکہ خوش بھی ہوگا کہ جس گناہ پر اسے سزا دی جانے چاہیے تھی اس گناہ پر اسے اعلیٰ عہدہ مل گیا۔۔
ابو اٹھے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا۔۔
جب گناہوں ہر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی۔ اور توبہ کے دروازے بند کر دیے گئے تم پر۔۔
میں نے یہ سن کر اپنے گریباں میں اور آس پاس نگاہ دوڑائی۔


کیا آج ایسا نہیں ہے؟؟
بار بار گناہوں کا موقع ملتا ہے ہمیں اور کتنی آسانی سے ملتا ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہماری۔ ہم خوش ہیں۔ عیش میں ہیں۔۔
پہلی بار گناہ پر دل زور زور سے دھڑکے گا آپکا، دماغ غیر شعوری سگنل دے گا۔ ایک ٹیس اٹھے گی ذہن میں۔ جسم لاغر ہونے لگے گا ، کانپنے لگے گا
 یہ وہ وقت ہوگا جس ایمان جھنجھوڑ رہا ہوتا ہے، چلا رہا ہوتا ہے کہ دور ہٹو، باز رہو۔


مگر دوسری بار یہ شدت کم ہو جائے گی۔ اور پھر ختم۔
پھر انسان مست رہتا ہے۔ اور خوش بھی۔ مگر افسوس کہ اوپر والا اس سے اپنا تعلق قطع کر لیتا ہے۔۔
گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار ہوگا اور آسان بھی، مگر یاد رکھیے سچ کا راستہ دشوار ہوتا ہے اس میں بے شمار تکلیفیں ہونگی، آزمائشیں، مصیبتیں سب ہونگی مگر گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار ہوگا۔۔
کسی زمین میں گندم خود بخود نہیں اگ آتی۔

آگائی جاتی ہے۔ محنت کی جاتی ہے،  خیال کیا جاتا ہے، حفاظت کی جاتی ہے تب جا کے پھل ملتا ہے مگر کسی زمین میں جھاڑیاں، غیر ضروری گھاس پھوس ، کانٹے دار پودے خود ہی اگتے ہیں۔ ان پہ کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی، وہ خود ہی اگتی ہیں اور کچھ ہی دنوں میں پوری زمین کو لپیٹ میں لیکر اسے ناکارہ بنا دیتی ہے۔۔
اسی طرح بالکل آپکے دل کی زمین ہے جہاں گناہوں کا تصور از خود پیدا ہوگا۔

اور بڑھے گا۔ مگر نیکیوں کے لیے گناہوں سے بچنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔۔ دشواریوں سے گذرنا ہوگا۔۔
خدارا بچیں۔ بچنا کمال ہے۔۔ باز رہنا کمال ہے۔  سوچیے ،کیوں حیا کا اٹھ جانا۔ ایمان اٹھ جانے کی نشانی ہے۔ نشانی ہے اس بات کی کہ اندھیری قبر میں بہت برا ہونے والا  ہے۔
خدا ہم سب کو ہدایت دے۔۔
آمین۔
حیا کوئی کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہے۔

حیا!ایک رویہ ہے،ایک تعارف ہے،ایک نظام زندگی ہے،حیا! قوموں کی طاقت ہے ، حیا! معاشروں کی برکت ہے، حیا! حکمرانوں میں ہو تو۔خزانوں کے منہ بھر ے رہتے ہیں،اور دشمن بھی ان سے ڈرے رہتے ہیں، اور وہ عوام کی خدمت کے لیے کھڑے رہتے ہیں ۔ حیا! عوام میں ہو تو۔حکمراں کی رہنمائی کے لیۓ بیدار رہتے ہیں،اسکی پشتے بانی کےلیۓ تیار رہتے ہیں،کوئ حکم آجائےتو تابعدار رہتےہیں،مسابقت کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں!
حیا! والدین میں ہو۔

!تو اولاد کی تربیت ہوتی ہے،حفاظت ہوتی ہے،،کفالت میں بھی عبادت ہوتی ہے،امانت میں دیانت ہوتی ہے!حیا! اولاد میں ہو تو۔والدین کی تکریم ہوتی ہے ،ان کے مقام کی تفہیم ہوتی ہے،ان کے معمولات کی تعظیم ہوتی ہے، انکی اطاعت سے خاندان کی تنظیم ہوتی ہے ۔
حیا! اساتذہ میں ہو تو۔!نسلوں میں صحت مند اقدار پروان چڑھتی ہیں،نسلیں ارتقا کی منزلوں پر پاؤں رکھتی ہیں،،،حیا! دوستوں میں ہو تو۔

! بھروسے کی تلوار پر مان اور شان کی ڈھال چڑھتی ہے! زندگی کی خستہ جھریوں میں جان پڑتی ہے!
حیا! عورت میں ہوتو گھروں میں سکون اور پیار ہوتا ہے،اور بدنظر کو راہ لیتے عار ہوتاہے، حیا مردوں میں تو پھرفصیلوں میں نقب دشوار ہوتا ہے کہ گھر کامالک خود ہی چوکیدار ہوتاہے ۔حیا اللہ کی صفت ہے! حیا رسول اللہ کی سنت ہے۔ حیا مسلمان کا شعار ہے ۔ آج حیا کی حفاظت سب سے زیادہ دشوار ہے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے کہ ہمارے وجود سے دوسروں کے جان مال عزت آبرو کا تحفظ ہو سکے۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :