گھاس والا چھترا

منگل 8 ستمبر 2020

Wajeeha Rubab Shahid

وجیہہ رباب شاہد

راجہ دار کی بہن جوان ہوئی تو اسے اس کی شادی کی فکر ہونے لگی_ اس کے ذاتی نجومی نے اسے بتایا کہ جس کے ساتھ آپ کی بہن کی شادی ہوگی وہ آپ کی سلطنت پہ قبضہ کرلے گا_ تو اس نے نجومی سے پوچھا مجھے کیا کرنا چاہیے؟ نجومی نے کہا کہ آپ خود اپنی بہن سے شادی کر لیں_ راجہ نے جواب دیا یہ ناقابلِ عمل ہے_ لوگ کیا کہیں گے؟ اس پہ نجومی کو ایک ترکیب سوجھی اس نے ایک چھترے کی کمر پہ تھوڑی سی مٹی ڈال کر چند بیج ڈال دیے جوکہ کسی گھاس وغیرہ کے تھے_ کچھ دن بعد اس پہ وہ بیج اگ گئے، لوگوں میں وہ چھترا ایک انوکھا تھا، لہٰذا لوگوں میں ایک عرصے تک یہ ایک عجوبے کی صورت میں موجود رہا_ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے یہ ایک عام سی بات تھی_ اس طرح نجومی نے راجہ کو اپنی بہن سے شادی پہ قائل کرلیا، اگرچہ یہ صرف کاغذی کاروائی تھی_ لیکن یہاں سے یہ بات واضح ہوئی کہ لوگوں میں کسی بھی واقع کی اہمیت ایک خاص دورانیے کے لیے ہوتی ہے پھر لوگ بھی بھول جاتے ہیں_ خیر یہ تو ایک تاریخی واقعہ تھا لیکن آج ہمارے معاشرے میں بھی تو یہی ہورہا ہے، کیوں نہ ہو، خطہ بھی وہی، لوگ بھی، جن کی نسلیں آگے چل رہی ہیں، اور کافی حد تک روایات و اقدار بھی وہی_ آج بھی وہی طریقہ کار رائج ہے_ اگر بھوکا روٹی چراتا ہوا پکڑا جائے تو اسے سخت سزا دی جاتی ہے، لیکن ملک لوٹنے والے عزت سے بری ہوجاتے ہیں_ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "اگر میری بیٹی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) بھی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا" _ 2017 میں چمن کے صوبائی اسمبلی کے رکن مجید خان اچکزئی نے ایک حاضر سروس ڈیوٹی پہ موجود ایک غریب اور مفلوک الحال گھرانے کے پولیس اہلکار عطاء اللہ کو گاڑی کے نیچے کچل کر ہلاک کر دیا_ اور اس کی سی سی ٹی وی ویڈیو بھی موجود ہے_ کہا جاتا ہے ک ہ" قانون اندھا ہوتا ہے" اس واقعہ کی ویڈیو اس قانون کی آنکھیں بنیں_ لیکن افسوس کہ آج ایک بار پھر سے قانون کی بجائے لاقانونیت انصاف کی بجائے ناانصافی اور حق کی بجائے باطل کی جیت ہوگئی_ آج پھر ایک غریب بے گناہ کا خون رائیگاں گیا_ مجید خان اچکزئی کو باعزت بری کردیا گیا_ دوسری جانب لازمی عطاء اللہ کے گھر میں ایک دفعہ پھر صفِ ماتم بچھ گئ ہوگی_ آج ہر غریب جس کی کہیں نہیں سنی جاتی، جس کے پاس رشوت دینے کو پیسہ ہے نہ اوپر رسائی کے لیے کوئی بڑی سفارش_ جسے کوئی در نظر آتا ہے تو صرف ایوان عدل ہے_ جس سے اسے انصاف کی امید ہوتی ہے_ لیکن آج ہر اس طرح کے عام آدمی کا اس فیصلے سے دل ٹوٹا ہوگا_  لیکن المیہ یہ ہے کہ ان پارلیمانی درختوں کی شاخیں اور جڑیں ہر محکمے اور ہر شعبے میں موجود ہوتی ہیں_ اور ان کے ایک اشارے کے منتظر  لوگ موجود ہوتے ہیں، تو پھر کیا اخلاقیات، کیا قانون، کیا انصاف سبھی ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے_ یہ واقعہ ہونے کے بعد تقریباً ہر میڈیا چینل نے اس واقعہ کی ویڈیو کو دکھایا گیا، ہرطرف ایک ہلچل مچ گئی_ ایک آزاد ملک میں ایک سرکاری ملازم کو ایک پارلیمنٹ کا نمائندہ سرِعام گاڑی مار کے ہلاک کردیتا ہے تو پھر یہاں ایک عام آدمی کیسے محفوظ ہے؟ چند دن میڈیا کے نمائندے چیختے چلاتے رہیے رہے، لیکن کچھ نہ بنا_ لیکن آج مجید خان کی رہائی کے بعد ایک دفعہ پھر موضوعِ بحث بن گیا_ یہاں قانون کی بالادستی ہے، جنگل کا قانون ہے، یا جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے؟ کیا اس واقعہ کے پہ پھر چند دن شور شرابہ کرکے خاموشی اختیار کر لی جائے گی؟ بالکل اس گھاس والے چھترے کی طرح_ خیر اس طرح کے چھترے ہمارے معاشرے میں آئے روز آتے رہتے ہیں، لیکن خدشہ ہے کہ اگر اس طرح کے چھترے اور فیصلے آتے رہے تو معاشرے کے امن کو خطرہ ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :