"دیکھو ڈاکیا آنا چاہتا ہے"

جمعرات 4 مارچ 2021

Zahid Yaqub Aamir

زاہد یعقوب عامر

تین دہائیاں گزر گئیں. میں ریلوے لائن کے پاس دوستوں کے ہمراہ محو گفتگو تھا, یا شاید کچھ کھیل رہا تھا تو ڈاکیا میرے پاس آ کر رکا. خاکی رنگ کا ایک لفافہ مجھے تھمایا. اس پر سرکاری مہریں ثبت تھیں. یہ میرا کال لیٹر تھا. یہ کال لیٹر انگلش میں تھا. میں نے اس پر "سیلیکٹڈ" کے الفاظ کو بغور پڑھا اور خوشی سے گھر کی جانب چل دیا. یہ پہلی کامیابی تھی جو عملی زندگی کے آغاز کا سبب بنی.

پہلی تنخواہ ملی تو زیادہ رقم الگ کی اور بذریعہ پوسٹ آفس گھر کے لیےمنی آرڈر روانہ کر دیا. تیرہ سو پچاسی روپے میں سے ہزار روپے لئے جب ڈاکیا گھر آیا تو والدہ نے منی آرڈر وصول کیا. یہ پہلا منی آرڈر تھا جو گھر میں کسی تنخواہ کی صورت موصول ہوا تھا.

(جاری ہے)

والدہ اندر گئیں اور چند روپے لا کر پوسٹ مین اشرف صاحب کو تھما دیے. بالعموم منی آرڈر پر انہیں کوئ رقم نہیں دیتا تھا مگر وہ پہلی تنخواہ تھی اور اس وجہ سے میرے منی آرڈر پر اسے چند روپے دیے گئے...

پھر وہ جب بھی میرا منی آرڈر لاتا اسے پیسے دیے جاتے جو وہ اصرار پر قبول کر لیتا.
گھر سے خطوط باقاعدگی سے موصول ہوتے تھے. میں بھی بہت چاؤ سے جواب لکھتا تھا. ہر کسی کا نام لکھنا, محلے داروں کا پوچھنا, اپنے شب و روز کی بابت کچھ بتانا. ڈاکیا میرے جوابی خطوط گھر پہنچاتا. اس نے کبھی خط پاس نہیں رکھا تھا کہ اگلے دن پہنچا دوں گا.
ڈاکیا ,اشرف صاحب ہمارے قصبے میں تقریباً پچیس کلومیٹر دور سے آتے تھے.

شریف النفس انسان, بھلے مانس سے. سارا دن ڈاک تقسیم کرتے, در در پر جانا اور شدید گرمی میں اپنی چادر سے پسینہ پونچھتے رہنا. وہ مجھے اسی لئے جانتے تھے اور میرا کال لیٹر میرے ہاتھ میں آن تھمایا تھا کیوں کہ میں ان کا بہت احترام کرتا تھا. پوسٹ آفس بلکہ میں اسے ڈاک خانہ ہی کہوں گا پہلے پہل تو ایک الگ دوکان میں تھا.  بعد ازاں محکمہ ڈاک نے اس جگہ کا کرایہ دینے سے انکار کر دیا.

یہ ڈاک خانہ خان حجام کی دوکان میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا. اسے کسی نے جگہ ہی مہیا نہ کی. جس طرح ریلوے کا نظام تباہ ہوتا رہا اور ہم دیکھتے رہے اسی طرح ڈاک کا نظام بھی درہم برہم ہوا اور ہمیں محسوس نہ ہوا. ہمارے ہاں ٹاؤن پلاننگ, کمیونٹی ڈویلپمنٹ, سوشل سیکیورٹی کے بنیادی ڈھانچے کی سمجھ بوجھ ہی نہیں. نہ ہی ہمارے نصاب میں اسے اہم مضامین کے طور پڑھایا جاتا ہے.

نصاب میں سوشیالوجی, سماجیات کا مضمون وہ طالب علم پڑھتا ہے جسے مجبوراً یہ پڑھنا پڑتا ہے. سوکس (علم شہریت) کا مضمون تو ہے مگر اس کے بنیادی تصورات اور مسائل کا اندازہ نہیں. ہم شہری تو ہیں مگر علم شہریت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اسے پڑھتے ہیں.
بہرحال وہ ڈاک خانہ ختم ہو گیا. ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا مشغلہ بھی مر گیا. لیٹر بکس کباڑیوں کی دوکانوں بیچ دیے گئے.

خاکی وردی پہنے ڈاکیا, جو ساتھ اپنے خط لاتا تھا. گرمی ہو یا سردی ہو.. اس کی ایک ہی وردی تھی, وہ بھی ماضی میں کھو گئے. پوسٹ آفس ہمارے لئے بہت غیر اہم ادارہ اور سست ترین ذریعہ پیغام و ترسیل رہ گیا. ہم نے ہر کوریئر کو ٹی سی ایس(TCS) کہنا شروع کر دیا. اس کا مطلب ہوا کہ ٹی سی ایس نے خلا دیکھا اور فوراً بزنس پھینک دیا.
قصور کس کا تھا؟ پوسٹ آفس یا ہمارا؟ معاشرے میں سوشل ورک کرتے مارے مارے پھرتے انسانوں کو ریل, ڈاک, واپڈا, صحت, تعلیم, سکول, پبلک لائبریری ,ٹاؤن کمیٹی, میونسپل کمیٹی, نظام نکاسی آب, پرائس کنٹرول کمیٹیاں بچانا سوشل ورک ہی محسوس نہیں ہوتا.

ان کے لئے تھانہ کچہری, لڑائ جھگڑے, عدالتی معاملات میں مدد کرنا ہی سوشل ورک ہے.
مجھے اور مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو اب بھی ڈاک خانے کی ضرورت رہتی ہے. میں اب بھی والدین کی دوائیں ڈاک خانے کے ذریعے بھیجتا ہوں. ڈاکیا آج بھی دوا میرے والدین کے ہاتھوں تھما کر واپس آتا ہے. وہ کوریئر کی طرح کال کرکے گندی سی لکھائی میں یہ نوٹ لکھ کر واپس نہیں بھجوا دیتا کہ " Address not found"
اللہ تعالیٰ خان حجام کو جنت نصیب فرمائے آمین.

اس نے ڈاک خانے کو جگہ دی تھی. وہ ہم سب سے زیادہ وژن والا انسان تھا. اسے لگا ہوگا ادارے ضرورت رہتے ہیں. اگر میری نہیں تو بہت سے دوسروں کی ضرورت رہتے ہیں. جب کسی بیٹے کا خط نہیں آتا تو بوڑھا باپ ڈاکیے سے ضرور پوچھتا ہے. کبھی کسی بزرگ نے کورئیر کو روک کر نہیں پوچھا کہ اس کے بیٹے کا خط تو نہیں آیا. اگر خط آ جائے تو اسی ڈاکیے کو پڑھنے کے لیے کہتا ہے.

کوئ پاس ورڈ پروٹیکشن نہیں, کوئ بایو میٹرک نہیں تھے. ڈاکیا قصبے کے ہر گھر کے سماجی رابطوں سے واقف ہوتا تھا. کس کے رشتہ دار کہاں ہیں اسے سب معلوم ہوتا تھا. عدالتی نوٹس, بینک کھاتے کہاں اور کس نوعیت کے ہیں. طلاق کے نوٹس وہ بغیر کھولے پڑھ لیتا تھا. کال لیٹر اسے محسوس ہو جاتے تھے. بیرون ملک سے آئے خطوط کے ڈاک ٹکٹ اسے پڑھنے میں کوئ دقت محسوس  نہیں ہوتی تھی.

وہ بہت سے ممالک کے کلچر کو ان کے ڈاک ٹکٹس کے ذریعے دیکھتا تھا. عید کارڈ تو عید والے دن بھی پہنچاتا تھا.
میں نے گزشتہ ستائیس سالوں میں کبھی ڈاک کے نظام کو برا نہیں سمجھا. میری کوئ چیز وہاں گم نہیں ہوئ. میرے والدین کی دوا محفوظ پہنچتی ہے. میرا کوئ لیٹر, منی آرڈر غلط جگہ نہیں پہنچا. پوسٹ مین میاں اکرم اور پھر اشرف صاحب تو نہیں رہے مگر میرا اعتماد ان اشخاص کی وجہ سے ہمیشہ قائم ہے.

میرا اس نظام پر یقین قائم ہے کہ ڈاکیا ایمانداری سے کام کرتا ہے. جہاں یقین ہو وہاں توقعات بھی آپ کا ساتھ نبھاتی ہیں. بہت سے لوگ جس طرح گڑ, شکر, آرگینک خوراک, پرانے طرز کے لباس, مسواک, فطرت... کی طرف لوٹ رہے ہیں وہیں ڈاک کا نظام بھی بہتر ہو رہا ہے. وہ اب ڈاک کو ترجیح دے رہے ہیں. زندگی اصل سے مزین اور روشن ہے. فطرت سے عبارت ہے وگرنہ مصنوعی تو سانس بھی میسر ہے مگر دیکھنے کے لیے آنکھیں اپنی ہی چاہیں ہوتی ہیں. سوچنے کے لئے دماغ اور احساس کے لئے دل اپنا ہی درکار ہوتا ہے. یہ تمام ادارے اور محکمے بھی اپنے ہیں. ان کو اپنا سمجھیں. ان کو گرنے نہیں دیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :