
پرائیویٹ اسکولز کا ماحول
پیر 27 جولائی 2020

ذیشان نور خلجی
اس کا جواب بعد میں دیتا ہوں۔ آئیے، پہلے اپنے بچپن کو چلتے ہیں۔ ابھی جب ہم بچے تھے تو دادیوں، نانیوں کی گود میں گھسے، ان سے پوچھا کرتے تھے اماں جی ! بتائیں تو ہم کیسے پیدا ہوئے؟ پھر کسی کو پرستان سے کوئی لال پری لے کر آئی، تو کوئی اڑن طشتری میں سوار ہو کر آیا اور ہم میں سے کچھ بچے پھولوں بھری ٹوکری میں تشریف لائے۔
(جاری ہے)
اور کیوں نہ آتے، بچے خود بھی تو کھلا ہوا پھول ہی ہوتے ہیں تو پھر انہیں پھولوں کی ہمراہی میں ہی آنا چاہئیے۔
لیکن ننھی مومنہ اب اتنی معصوم نہیں رہی کہ اس طرح کی الف لیلوی داستانوں پر یقین کر لے۔ کیوں کہ وہ ایک ہائی پروفائل پرائیویٹ اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ اگلے دن کی بات ہے جب دادی ماں نے کہا بیٹا ! ہم آپ کو پھولوں کی ٹوکری سے اٹھا کر لائے تھے تو اس نے دادی کی بات رد کرتے ہوئے کہا۔ دادو ! آپ کو شاید اندازہ نہیں، میں تو ماما کے پیٹ سے آئی تھی اور یہ بات مجھے میری اسکول ٹیچر نے بتائی ہے۔ بات صرف یہی تک ہوتی تو بھی ٹھیک تھا۔ لیکن بچے ہیں نا، سوال پر سوال کئے جاتے ہیں۔ سو مومنہ نے بھی جھٹ سے اگلا سوال داغ دیا۔ دادو ! ایک بات تو بتائیں، "میں اپنی ماما کے پیٹ میں گئی کیسے تھی؟"
چلیں چھوڑیں ان سوالات کو۔ مومنہ کی دادی چونکہ ریٹائرڈ لائف گزار رہی ہیں تو کرنے کو کچھ خاص ہوتا نہیں، سو فلموں ڈراموں سے ہی اپنا جی بہلاتی رہتی ہیں۔ اسی طرح ایک دن کی بات ہے۔ وہ مشہور زمانہ فلم ٹائیٹینک دیکھ رہی تھیں۔ جس میں جہاز ڈوبتے ڈوبتے، بہت سوں کے جذبات جگا گیا تھا یعنی کہ ایک بھرپور رومانوی فلم ہے۔ تو مومنہ بیٹی گزرتے گزرتے ان کے کمرے میں آتی ہے اور دادی کی گود میں چڑھ کے بیٹھ جاتی ہیں۔ دادی اماں بچی کی معصومیت کا خیال کرتے ہوئے چینل چینج کرنے لگتی ہیں۔ تو مومنہ جھٹ سے کہتی ہے دادو ! واپس اسی چینل پر لگائیں، آگے بہت مزے دار سین ہے بس جہاز ڈوبنے ہی والا ہے۔ دادی چونک جاتی ہیں۔ پوچھتی ہیں بیٹا ! آپ کو کیسے پتا ہے اس مووی کا؟ آپ نے یہ کہاں دیکھی؟ تو مومنہ کہتی ہے ہمارے اسکول میں اسے دکھایا گیا ہے اور اس کے علاوہ میں نے اور بھی بہت سی انگلش موویز دیکھ رکھی ہیں۔
صاحبو ! یہ کوئی فرضی کہانی نہیں، بلکہ ایک ایلیٹ کلاس نجی اسکول کا جیتا جاگتا واقعہ ہے۔ میں اسکول کا نام اس لئے نہیں لوں گا کہ اس اسکول چین کے بارے میں اور بھی بہت سی اخلاق باختہ خبریں اب طشت ازبام ہو چکی ہیں۔ تو اگر ان اسکینڈلز بارے کوئی انضباطی کاروائی عمل میں لائی جائے گی تو ایسے واقعات خود بخود ہی ختم ہو جائیں گے۔ لیکن اگر بات صرف کمیٹیوں کی حد تک ہی محدود رہی تو پھر یہ سب لکھنے کا بھی کیا فائدہ؟ ہاں، جاتے جاتے متعلقہ اداروں اور ریاست کے حضور یہ ضرور عرض کروں گا کہ اگر آپ دشمن کے بچوں کو پڑھا کر فارغ ہو چکے ہیں تو براہ مہربانی کچھ نظر کرم اپنے بچوں پر بھی کریں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ذیشان نور خلجی کے کالمز
-
امام صاحبان کے غلط رویے
بدھ 6 اکتوبر 2021
-
مساجد کے دروازے خواتین پر کھولے جائیں
منگل 28 ستمبر 2021
-
اللہ میاں صاحب ! کہاں گئے آپ ؟
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
مندر کے بعد مسجد بھی گرے گی
پیر 9 اگست 2021
-
جانوروں کے ابو نہ بنیے
جمعہ 23 جولائی 2021
-
عثمان مرزا کیس کے وکٹمز کو معاف رکھیے
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
بیٹیوں کو تحفظ دیجیے
پیر 28 جون 2021
-
مساجد کی ویرانی اچھی لگتی ہے
پیر 7 جون 2021
ذیشان نور خلجی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.