
ٹیلی گرام اور بابا جی
پیر 25 جنوری 2021

ذیشان نور خلجی
ہوا یوں کہ کافی عرصہ پہلے ایک صاحب کا نمبر سیو کیا اور وٹس ایپ پہ ان سے بات ہوئی بعد میں وہ نمبر ڈیلیٹ کر دیا۔ پھر پچھلے دنوں موبائل میں ٹیلی گرام میسنجر انسٹال کیا تو چند دن بعد ایک نوٹیفکیشن موصول ہوا کہ وہ صاحب بھی ٹیلی گرام پر منتقل ہو چکے ہیں جن کو ڈیلیٹ کیے بھی ایک عرصہ ہو چکا تھا۔ اور اس میں چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ نوٹیفکیشن میں ان صاحب کا یوزر نیم ظاہر نہیں ہوا بلکہ وہ نام سامنے آیا جو کبھی میں نے محفوظ کیا تھا۔
(جاری ہے)
میری عادت ہے کہ ہمیشہ نام کے ساتھ شہر کا حوالہ بھی محفوظ کرتا ہوں تاکہ شناخت میں آسانی ہو اور ان کا نام بھی شہر کے نام کے ساتھ ہی ظاہر ہوا۔
شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے موبائل اسٹوریج یا پھر گوگل اکاؤنٹ میں ان کا نمبر سیو کیا ہوگا جو کہ ڈیلیٹ ہونے کے بعد بھی وہیں پڑا رہ گیا تو ایسا کچھ نہیں ہے کیوں کہ میں ہمیشہ سم اسٹوریج کا ہی استعمال کرتا ہوں۔دوستو! اس سے اندازہ لگا لیں کہ وٹس ایپ انتظامیہ جس کام کی اجازت طلب کر رہی ہے وہی سب کچھ دوسری ایپلیکیشنز یا پھر خود ہمارا اسمارٹ فون پہلے سے انجام دے رہا ہے۔ لہذا اب سوچا ہے کہ وٹس ایپ میسنجر ہی استعمال کیا جائے کیوں کہ میرے وہ قومی راز جن کے طشت ازبام ہونے کے ڈر کی وجہ سے، میں وٹس ایپ سے کنارا کرنے کا سوچ رہا تھا وہ سب تو پہلے ہی دشمن کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
انہی دنوں ایک الیکشن مہم کے سلسلے میں وٹس ایپ پر کافی زیادہ وقت گزرا تو ایک اور بات نوٹس میں آئی۔ ہماری نوجوان نسل کہ جن کے کرش وغیرہ کے چکر شکر ہوتے ہیں یہ لوگ وٹس ایپ اسٹوری کا استعمال بھی عین ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اور یہاں ایسا ایسا مواد دیکھنے کو ملتا ہے کہ بے اختیار جوان ہونے کو جی چاہتا ہے اور اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ وٹس ایپ کی اندرونی دنیا کس قدر رنگین ہے۔ یہ آئے روز کے ویڈیو اسکینڈلز، اس کے تانے بانے کہیں انہی ایپلیکشنز سے جا کر ملتے ہیں اور اس حوالے سے میرا مشورہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل جو کہ وٹس ایپ کو ایسے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے آئندہ سے وٹس ایپ تو ایک طرف اسمارٹ فونز پر بھی ایسی حرکتوں سے گریز کرے اور کوئی دوسری راہ نکالے۔
دیکھیے، میں یہ نہیں کہوں گا کہ آپ ایسی حرکتوں سے باز آ جائیں کہ ناقابل عمل باتوں کی تاکید کرنا میرا مزاج نہیں۔ ہاں آپ کے بڑے ایسی باتیں کرتے اچھے لگتے ہیں اور ان کی بات میں اثر بھی ہوتا ہے لیکن میں چونکہ آپ کا دوست واقع ہوا ہوں اس لئے مجھے ایسے پند و نصائح سے مبرا جانیے۔ ہاں، ایک واقعہ لکھ رہا ہوں خود ہی کچھ اخذ کر لیجیے گا۔
یہ اسمارٹ فونز سے پہلے کا زمانہ تھا۔ ایک بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کی، اللہ والیو ! بہک بہک جانے کو جی چاہتا ہے اور انسان ہوں، بندہ بشر ہوں سو کبھی کبھار پاؤں پھسل بھی جاتا ہے لیکن پشیمانی ہے کہ جان نہیں چھوڑتی۔ کچھ ایسا بتائیے کہ بس پاک صاف ہو جاؤں۔ بابا جی دھیرے سے مسکرائے، فرمانے لگے پتر ! تیرا باپ آدم خدا کا نبی تھا۔ رب سوہنے نے خود اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔ بچوں کی طرح اسے بولنا چالنا سکھایا، پھر رہنے کو جنت کے باغات دیے۔ کھانے کو طرح طرح کے میوے، ہر طرف نعمتیں ہی نعمتیں۔ لیکن آدم پھر بھی بہک گیا۔ اور توں بھی تو اسی آدم کا بیٹا ہے توں نے یہ کیسے سوچ لیا کہ توں نہیں بہکے گا۔ نہ تو توں نبی ہے نہ ہی توں نے کسی نبی کو دیکھا ہے توں نے تو خدا کو بھی نہیں دیکھا۔ ایک اس جنت کی آس میں جو توں نے کبھی دیکھی ہی نہیں اور توں سمجھتا ہے کہ وہ تجھے بہکنے سے باز رکھ سکے گی۔ ناں پتر جی ناں، یہ تیری خام خیالی ہے۔ توں نے بہکنا ہے اور لازمی بہکنا ہے لیکن ایک کام کریو ابلیس کی طرح دلیر نہ ہو جائیو بلکہ جب کبھی بہکیو تو آدم کا بیٹا ہونے کے ناطے اپنے ان دیکھے اور سچے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیو، وہ سب معاف کر دے گا۔
میں چونکہ کچا تھا سو سوال کر دیا بابا جی ! کچھ لوگ ایسے بھی تو ہیں ناں، جو نہیں بہکتے۔ بابا جی کہنے لگے، ہاں پتر ہزار میں کوئی ایک آدھ دانہ ایسا بھی ہوتا ہے جن پر رب سوہنے کا خاص کرم ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیو جب اس نیک روح کے دل میں یہ خیال آ جائے کہ وہ چنیدہ ہے اور بہک نہیں سکے گا تو پھر لکھ رکھیو کہ وہی سب سے زیادہ بہکا ہوا ہے۔ پتر ! یہ نیک ہونے کی بو بڑی بری ہوتی ہے اور رب سوہنا کبھی ایسے بندے کو پسند نہیں کرتا۔ شان پتر ! تیرا کام بس یہی ہے کہ توں گناہ کرتا جائیں اور پشیمان ہوتا جائیں ایک وقت آئے گا جب وہ خود تجھے گناہوں کی دلدل سے نکال باہر کرے گا۔ لیکن تب بھی یہ نہ سوچنا کہ توں نیک ہو چکا ورنہ تیری ساری نیکیاں تیرے منہ پر مار دی جائیں گی۔
یقیناً آپ محسوس کر رہے ہوں گے کہ آج کے کالم میں کچھ کمی سی ہے تو اخبار ایک طرف رکھیے اور چائے کا کپ یا سگریٹ سلگائیے اور کچھ اخذ کر لیجیے کہ میرے پاس تو اب کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ذیشان نور خلجی کے کالمز
-
امام صاحبان کے غلط رویے
بدھ 6 اکتوبر 2021
-
مساجد کے دروازے خواتین پر کھولے جائیں
منگل 28 ستمبر 2021
-
اللہ میاں صاحب ! کہاں گئے آپ ؟
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
مندر کے بعد مسجد بھی گرے گی
پیر 9 اگست 2021
-
جانوروں کے ابو نہ بنیے
جمعہ 23 جولائی 2021
-
عثمان مرزا کیس کے وکٹمز کو معاف رکھیے
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
بیٹیوں کو تحفظ دیجیے
پیر 28 جون 2021
-
مساجد کی ویرانی اچھی لگتی ہے
پیر 7 جون 2021
ذیشان نور خلجی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.