
دہشت گردی اور غیر روایتی انداز
پیر 10 مارچ 2014

زبیر احمد ظہیر
(جاری ہے)
اب اس جنگ کو واپس افغانستان دھکیلانا ہوگا ۔یہی ہماری سیاسی وعسکری قیادت کا امتحان ہے ۔اس جنگ کو واپس دھکیلنے کے لیے ہمیں اپنی روایتی سوچ کو بدلنا ہوگا ۔روایتی سوچ ہی بدل کرہم اس جنگ کو واپس افغانستان بدر کرسکتے ہیں ۔اگر جنگل کا کوئی بھیڑیا آبادی کا رخ کرلے ،اور کسی انسان کو چیرپھاڑ جائے تو ایسے حادثات کے تدارک کے لیے دو چار ماہر شکاریوں کی خدمات حاصل کی جائیں گی جنہیں جنگل کا رخ کرنا ہوگا وہ جا کرخونخوار بھیڑیے کا قلع قمع کردیں گے ، اس طرح آبادی کی جان ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائے گی۔میت پر بیٹھ کررونے سے جنگل کا بھیڑیا کبھی ختم نہیں ہوسکتا ۔ہم ماتم کرکے یہ سمجھ رہے کہ حملہ آور ختم ہوگیا حملہ آور تعاقب اور تدارک سے ختم ہوتا ہے۔مذاکرات جنگل تک جانے کا راستہ ہیں اور اصل دشمن تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں ۔یہ سلسہ جاری رہنا چاہیے اور روایتی انداز بدل کر یہ بھی لازمی دیکھا جائے کہ طالبان کے علاوہ ایسی ملک دشمن سرگرمیوں میں اور کون ملوث ہے؟ اور کس کے اشاروں پر یہ خون خرابہ ہورہا ہے ۔ دھیان رہے کہ انڈیا نائن الیون سے قبل بھی پاکستان میں بم دھماکے کرانے میں کھلے عام ملوث رہا ہے ۔بھارت کی پاکستان سے دشمنی کا 53سالہ ریکارڈبھی دہشتگردی سے لبریز ہے ۔اور نائن الیون کی جنگ کو شروع ہوئے تیرہ سال بیتے ہیں ۔
جب سے دہشت گردی کے خلاف امریکاکی جنگ شروع ہوئی ہے تب سے اب تک روایتی دشمن بھارت کو ہم نے سرے سے ہی فراموش کردیا ۔2001سے لے کر اب تک تیرہ برس میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے کسی دہشت گرد کو گرفتار کرنے ،اس سے راز اگلوانے کی کوئی بڑی خبر کہیں بھی رپورٹ نہیں ہوئی ،پڑوسی ملک افغانستان میں بھارت کے تھوک کے حساب سے قونصل خانوں کی موجودگی ،تعمیراتی ٹھیکوں اور ان کے سیکورٹی عملے کی شکل میں بھارتی فوج کی عسکری معاونت یہ تمام کڑیاں تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہیں ۔لیکن یوں لگتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو سرے سے فراموش کردیا ہے ۔ظاہر ہے روایتی دشمن اپنا انتقام فراموش نہیں کرتے ۔امن آشا جتنی بھی پرامن ہو، ازلی دشمن کی دشمنی کبھی ختم نہیں ہوسکتی ۔یہ اہم پہلو کیوں فراموش کردیا گیا ہے ۔جس بھارت نے 53برس تک دشمنی مول رکھی ۔ضد ،انا کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا ،انتقام در انتقام جس کی ریت رہی ،جس نے ہر بار پاکستان کو زچ کیے رکھا،تین جنگیں پاکستان پر مسلط کیں، پہلے دن سے ہی جس نے پاکستان کو دل سے قبول نہ کیا ۔وہ بھارت پچھلے تیرہ سال سے ہمیں کیوں فراموش کرگیا ،کیا بھارت نے ہمیں معاف کردیا ۔یہ تمام سوالات اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہیں تاہم دہشت گردی کی جنگ میں ہم نے بھارت کو سرے سے ہیبھلا دیا ہے
کیا ہم نے کشمیر پر بھارت کے قبضے کو تسلیم کرلیا ہے؟ کیا ہمارے تمام معاملات بھارت سے طے پا گئے ہیں ۔
2001سے قبل ہماری فوج کی جنگی مصروفیت نہ ہونے کے برابر تھی ۔اور فوجی افسر سرکاری محکموں میں تعینات ہوا کرتے تھے ۔اب ہماری فوج بھارت کی طرح مسلسل حالت جنگ میں ہے ۔پہلے افغانستان سے متصل ہماری سب سے بڑی2ہزارپانچ سو کلومیڑطویل سرحدفوجی پہرے سے خالی تھی ۔آج وہاں ڈیڑھ لاکھ فوجی سخت پہرے پر ہیں ۔یہ وہ سرحد ہے جب ہم نے بھارت سے تین جنگیں لڑیں تو ہماری پیٹھ مکمل خالی تھی ۔تب جنگ میں ہماری مکمل توجہ بھارت کی جانب مرکوز رہی ۔آج ویسی صورت حال نہیں ۔بھارت کو کبھی گوارا نہیں کہ پاکستان اسے ہی دشمن سمجھے اور مکمل توجہ اس کی جانب کرے ۔اس لیے بھارت افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور نہ امریکا کو خالی ہاتھ جانے دینے پے رضامند ہے ۔ہمیں افغانستان سے آئی جنگ کو دیس نکالا دینا ہوگا ۔اس کے لیے روایتی انداز بدلنا ہوگا ۔اور دہشت گردی میں ملوث تیسرے ہاتھ کو بھی تلاش کرنا ہوگا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
زبیر احمد ظہیر کے کالمز
-
ہائے․․․․․ مجھے بچاؤ
بدھ 24 اپریل 2019
-
انقلاب آزادی مارچ …سیاسی انتہاپسندی کا طوفان
پیر 8 ستمبر 2014
-
پاک بھارت تعلقات…اسلام آباد دھرنوں سے خراب
منگل 2 ستمبر 2014
-
آزادی مارچ…یا… اقتدار کا لالچ؟
منگل 19 اگست 2014
-
مودی کا جنگی جنون…مارنے کو ہے شبخون
جمعرات 14 اگست 2014
-
عالمی لینڈمافیا بمقابلہ نہتے غزہ کا المیہ
اتوار 20 جولائی 2014
-
مہاجرین کی مدد کیجئے…رمضان کا ثواب پالیجئے
اتوار 6 جولائی 2014
-
سانحہ ماڈل ٹاؤ ن…قصور وار کو ن؟
جمعرات 26 جون 2014
زبیر احمد ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.