چین دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک

منگل 18 مئی 2021

Zubair Bashir

زبیر بشیر

حالیہ دنوں چین میں ساتویں مردم شماری کے اعداد و شمار جاری کئے گئے۔ یہ اعداد و شمار چین کی تیز رفتار ترقی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق چین کی اعلیٰ معیاری ترقی کا سفر آگے بڑھ رہا ہے۔ مردم شماری کے مطابق سال 2020 کے اختتام تک چین کی آبادی 1.41 بلین افراد تک پہنچ گئی، یہ تعداد دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 18 فیصد ہے ، جو اب بھی دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔

مردم شماری کے مطابق چین کی کل آبادی 1.41178 بیلین تک جا پہنچی ہےجو دو ہزار دس کے مقابلے میں  72.06   ملین کے اضافہ کے ساتھ   5.38% زیادہ ہے ۔اوسط سالانہ شرح اضافہ 0.53% رہی اور  اس  تعداد  میں دو ہزار تا دو ہزار دس  کے مقابلے میں  0.04  پرسینٹیج پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی۔اعدادوشمار  کے مطابق چین کی آبادی میں دس برسوں میں کم رفتار سے اضافہ ہو ا۔

(جاری ہے)

پوری آبادی میں مردوں کا تناسب 51.24%  جب کہ خواتین کا تناسب 48.76% بنا۔ دو ہزار دس کے مقابلے میں صفر سے چودہ  ،پندرہ سے انسٹھ   اور ساٹھ سال سے زائد عمر والوں کے تناسب  میں بالترتیب1.35 پرسینٹیج پوائنٹس اضافہ ، 6.79 پرسینٹیج پوائنٹس  کمی اور  5.44  پرسینٹیج پوائنٹس اضافہ ہوا۔  بچوں کی آبادی  کے تناسب میں اضافے سے ظاہر  ہوتاہے کہ آبادی کی پالیسی کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں جب کہ عمر رسیدہ افرادکے تناسب میں اضافے کی  بدولت آنے والے عرصے میں آبادی کی متوازن ترقی کا دباؤ   رہے گا۔

                 
سروے کے نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ چین کا ڈیموگرافک ڈویڈنڈ ،   ٹیلنٹ ڈیویڈنڈ  کی طرف  منتقل ہو رہا ہے، جو چین کی  ترقی کو مزید مستحکم کرتا ہے۔مردم شماری سے چین کی آبادیاتی تبدیلیوں کی مثبت خصوصیات کا انکشاف بھی ہوا۔ مثال کے طور پر ، چین کی ورکنگ آبادی میں ہائی اسکول اور اس سے زیادہ تعلیم کے حامل افراد کی تعداد 385 ملین تک پہنچ گئی ہے جس میں سن 2010 سے 12.8 پرسنٹیج پوائینٹس کا اضافہ ہوا۔


گزشتہ برسوں کےدوران، چین کی شہری مستقل آبادی میں 236 ملین افراد کا اضافہ ہوا ہے، چین میں عارضی  شہری آبادی 376 ملین تک پہنچ گئی ، اس میں دس سالوں میں تقریباً 70 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔یہ تلاش کرنا مشکل نہیں ہے کہ مذکورہ بالا آبادیاتی تبدیلی کے رجحانات چین کے اعلیٰ معیار کی ترقی کی طرف منتقل ہونے کے تاریخی عمل کے مطابق ہیں۔پچھلی چند دہائیوں میں ، چین کی تیز رفتار معاشی ترقی ،  مناسب پالیسیوں کے ساتھ ساتھ شہر کاری  اور اعلیٰ تعلیم کے حامل افراد کی تعداد میں اضافے کا نتیجہ ہے۔

 
برطانیہ کے کنگز کالج لندن میں انسٹی ٹیوٹ آف چائینیز اسٹڈیز کے ڈین کیری براؤن نے حال ہی میں گلوبل ٹائمز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا کہ دنیا کی ترقی کا زیادہ تر حصہ چین سے منسوب  ہے۔ براؤن نے کہا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی تشکیل کے بعد  ایک صدی کے دوران   ، چین نے  حیران کن تبدیلیاں کیں ، اور اس کی قومی طاقت اور بین الاقوامی حیثیت ماضی  سے بالکل مختلف ہے۔

در حقیقت   دنیا نے  غربت اور   بیماری میں کمی لانے سمیت ہر میدان میں جو  ترقی کی  ہے ، چین کی کامیابیوں اور بھارت اور پورے  افریقہ کی ترقی   کی مرہون منت  ہے۔ان کا خیال ہے کہ   چین یورپ کو  متعدد شعبوں  جیسے ماحولیاتی سائنس  میں بہت کچھ سکھا سکتا ہے۔ اس کے لئے یورپ کو کھلے رویے  کی ضرورت ہے۔
چین کی ساتویں قومی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق ، چین میں 55 اقلیتی قومیتوں کی کل آبادی سال انیس سو بیاسی کے چھ کروڑ بہتر لاکھ نوے ہزار سے بڑھ کر سال دو ہزار بیس میں بارہ کروڑ پچاس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

گزشتہ 38 سالوں میں چین میں اقلیتی قومیتوں کی آبادی میں پانچ کروڑ اسی لاکھ سے زائد اضافہ ہوا ہے، جس کی شرح اضافہ 86 فیصد سے بھی زائد ہے۔
سروے رپورٹ کے مطابق رپورٹ کے مطابق ، 2020 میں  1.41 بلین چینی آبادی میں سے  900 ملین سے زیادہ افراد شہری علاقوں میں رہتے ہیں ، یہ تعداد مجموعی آبادی کا 63.89فیصد  بنتی  ہے۔ جبکہ  1982 میں شہری علاقوں  میں رہنے والی چینی آبادی کا تناسب  ملک کی کل آبادی  میں صرف 20.9 فیصد  تھا ۔

چین  میں شہر کاری کا عمل  40 سال سے بھی کم وقت کا عرصہ لگا ہے ۔  
 رپورٹ کے مطابق ، چین میں ہر ایک لاکھ  افراد  میں اعلیٰ تعلیم کے حامل  افراد کی تعداد 1982 کے 615 سے بڑھ کر 2020 میں 15،467  تک پہنچ گئی ہے  ، جس سے چین کے نظام تعلیم کی نمایاں بہتری کا رجحان ظاہر  ہوتا ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :