حکومت نے معیشت کو بہتر بنانے اور توانائی بحران کے خاتمے کے لئے مناسب اقدامات کئے ہیں،

بجٹ میں اعلان کردہ اقدامات سے چھوٹے صوبوں اور پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو بھی فائدہ ہونا چاہئے سینیٹ میں ارکان کا بجٹ 2018-19ء پر بحث کے دوران اظہار خیال

منگل 8 مئی 2018 20:42

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 مئی2018ء) سینیٹ کے ارکان نے کہا ہے کہ حکومت نے معیشت کو بہتر بنانے اور توانائی کے بحران کے خاتمے کے لئے مناسب اقدامات کئے ہیں۔ بجٹ میں اعلان کئے جانے والے اقدامات سے چھوٹے صوبوں اور پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو بھی فائدہ ہونا چاہئے۔ ادارے اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں ، ملک میں جمہوریت مضبوط ہوگی اور عوام کے حقوق کا بھی تحفظ ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو ایوان بالا میں بجٹ 2018-19ء پر بحث کرتے ہوئے کیا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں کمی افسوسناک ہے۔ بجٹ خسارہ 5 فیصد ہے جس کی وجہ سے حکومت کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بالواسطہ ٹیکس بڑھنے کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے اس لئے بالواسطہ ٹیکس ختم کر کے بلاواسطہ ٹیکس کا نظام رائج کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے معیشت کو بہتر بنانے اور توانائی کے بحران کے خاتمے کے لئے مختلف اقدامات کئے ہیں لیکن ان کے ثمرات چھوٹے صوبوں اور پسماندہ علاقوں میں محسوس نہیں ہو رہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ عوامی خواہشات کے مطابق پیش کیا جانا چاہئے تھا۔ این ایف سی ایوارڈ کے بغیر بجٹ کا اعلان افسوسناک امر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ادارے اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر کام کریں تو اس سے ملک میں جمہوریت بھی مضبوط ہوگی اور عوام کے حقوق کا بھی بہتر انداز میں تحفظ کیا جا سکتا ہے۔

سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں معیشت اور توانائی کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ 12 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوئی ہے۔ صنعتی، زرعی اور دیگر شعبوں میں ہم ترقی دیکھ رہے ہیں۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقیاتی بجٹ اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو تنقید برائے تنقید کی بجائے تنقید برائے اصلاح کرنی چاہئے۔ سینیٹر مہرتاج روغانی نے کہا کہ فنانس کمیٹی کو ملک میں بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے زیادہ رقوم خرچ کرنے کے حوالے سے اپنی سفارشات دینی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں غربت بڑھ رہی ہے۔

غربت کے خاتمے کے لئے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ نوجوانوں کی آبادی میں تعداد بہت زیادہ ہے، انہیں بہتر تعلیم، روزگار اور دیگر سہولیات دے کر ہم ملک میں مثبت سرگرمیوں کو فروغ دے سکتے ہیں اور معاشی ترقی کی بنیاد کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ سینیٹر اورنگزیب خان نے کہا کہ فاٹا میں آج بھی لوگ صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علاقے پسماندہ اور ترقی سے محروم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ فاٹا کے لئے این ایف سی کے مطابق فنڈز فراہم کئے جائیں اور ان فنڈز میں اضافہ کیا جائے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں بہت سے بہتر کام بھی شامل ہیں اس لئے بہتر کاموں کی تعریف کی جانی چاہئے۔ سینیٹر محمد اکرم نے کہا کہ آنے والی حکومت اس بجٹ میں ردوبدل کر سکتی ہے۔ بجٹ جب بھی تیار ہوتا ہے اس میں آمدن و اخراجات کا تخمینہ اور درآمدات و برآمدات کے اعداد و شمار شامل ہوتے ہیں۔

وفاقی بجٹ میں بلوچستان کو جو حصہ ملنا چاہئے تھا اس سے بہت کم دیا گیا ہے۔ بلوچستان کا شمار اب بھی پسماندہ صوبوں میں ہوتا ہے۔ اس کے احساس محرومی کو ختم کرنا چاہئے۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پانچ سال کی مدت پوری کر رہی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے مورال کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن الحمد الله حکومت نے تمام رکاوٹوں کے باوجود پانچ سالوں میں گورننس اور جمہوریت کو فروغ دیا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات اٹھائے۔

بجٹ میں مسلم لیگ (ن) نے عوام کی بہتری کے لئے بہت سے اہم اقدامات اٹھائے ہیں جس پر مفتاح اسماعیل اور رانا افضل مبارکباد کے مستحق ہیں۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شیری رحمان نے بجٹ پر بحث کے دوران کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے منصوبوں کو موجودہ حکومت اپنے کھاتے میں ڈال رہی ہے، لواری ٹنل، انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور سی پیک کے منصوبے ہمارے دور میں شروع ہوئے۔

اپوزیشن لیڈر نے دعویٰ کیا کہ ملک میں 8 ہزار میگا واٹ بجلی کی قلت ہے۔ پاکستان کو کرایہ کے بجلی گھروں کے معاملہ پر 800 ملین ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومتی کارکردگی کے بارے میں سینیٹر سعدیہ عباسی کی بجٹ تقریر کا جواب دیتے ہوئے شیری رحمان نے کہا کہ اگر ایل این جی اور دیگر منصوبوں کے حوالے سے ان کے دعوے حقائق کے مطابق ہیں تو آج تک پارلیمنٹ کو ایل این جی کے معاہدے سے کیوں نہیں آگاہ کیا گیا۔

اب بھی ویب سائیٹ پر معاہدے کی جگہ کالی سیاہی پھیر دی گئی ہے۔ قوم سے کیوں چھپایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک ہم نے شروع کیا، خاتون سینیٹر یہ بھی غلط کہہ رہی ہیں کہ لواری ٹنل انہوں نے شروع کیا۔ اس منصوبے کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی۔ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ آج پاکستان معاشی بدحالی کا شکار ہے، ایسی صورتحال ملک میں ملک کس طرح ترقی کرے گا۔

وزیر خزانہ نے بتایا ہے کہ گوادر پورٹ سے تجارت میں اضافہ ہوگا لیکن یہ سب امن و استحکام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چین نے چیئرمین مائو کے انتقال کے بعد بڑے پیمانے پر اصلاحات کیں، تنگ نظریاتی دائرے سے نکل گئے۔ ہمیں بھی چین کی تقلید کرنی چاہئے۔ چین اور بھارت کے مابین سرحدی تنازعات کے باوجود تجارت ایک بلین ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ ہم کب تک ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے۔ ایک وقت تھا جب افغانستان کے ساتھ ہماری تجارت تین ارب ڈالر تھی جو اب کم ہو کر ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ تجارت اور سی پیک کے ثمرات سے ہم اسی صورت مستفید ہو سکتے ہیں جب ہم ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر سکیں گے۔