Live Updates

نوازشریف فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس میں بری ،ْ العزیزیہ میں سات سال قید کی سزا اور جرمانے ،ْ کمرہ عدالت سے گرفتار

احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے قومی احتساب بیورو کی جانب سے دائر ریفرنسز پر 19 دسمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا نواز شریف اثاثوں کے جائز ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے، سابق وزیراعظم بدعنوانی کے مرتکب قرار نواز شریف پر دس سال کیلئے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی عائد ،کوئی عوامی عہدہ رکھنے پر فوری نا اہل ہونگے حسین اور حسن نواز کے دائمی وارنٹ جاری ، نیب کو دونوں کا نام اشتہاری ملزمان کی فہرست میں شامل کر کے کورٹ ریکارڈ میں لانے کی ہدایت فیصلے کے وقت سابق وزیراعظم محمد نوازشریف ،ْ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف اور دیگر لیگی رہنما کمرہ عدالت میں موجود تھے سابق وزیر اعظم کی اڈیالہ جیل کی بجائے لاہور جیل منتقل کر نے کی استدعا منظور ،ْ عدالت کی نوازشریف کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کر نے کی ہدایت ایمانداری سے ملک اور عوام کی خدمت کی ہے ،ْمیرا ضمیر مطمئن ہے ،ْ سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کی عدالتی فیصلے سے قبل گفتگو احتساب عدالت کے باہر کارکنوں کے رش کے باعث دھکم پیل ،ْ پولیس اور کارکنوں کے درمیان کشیدگی دیکھنے میں آئی پولیس کی کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ ،لاٹھی چارج ،ْلیگی کارکنوں نے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا

پیر 24 دسمبر 2018 22:44

نوازشریف فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس میں بری ،ْ العزیزیہ میں سات سال قید ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 دسمبر2018ء) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم محمدنواز شریف کو فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بری کرتے ہوئے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید اورڈھائی کروڑ ڈالر اور پندرہ لاکھ برطانوی پائونڈ جرمانے کی سزا سنادی جس کے بعد سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔

پیر کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریفرنسز پر فیصلہ سنایا۔سابق وزیراعظم نواز شریف نے خود عدالت میں فیصلہ سنا اس موقع پر سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کے بھتیجے حمزہ شہباز شریف اور دیگر لیگی رہنما بھی موجود تھے ۔19دسمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنائے ہوئے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کہاکہ ناکافی شواہد کی بنیاد پر محمد نوازشریف کو فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بری کیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

فیصلے میں کہا گیا کہ نوازشریف کی جانب سے العزیزیہ ریفرنس میں منی ٹریل نہیں دی گئی اور اس ریفرنس میں کافی ثبوت موجود ہیں لہٰذا نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔عدالتی فیصلے کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق نواز شریف پر ڈھائی کروڑ ڈالر (3 ارب 47 کروڑ روپے سے زائد) اور 15 لاکھ پاؤنڈ (26 کروڑ 43 لاکھ روپے )سے زائد یعنی کل 3 ارب 74 کروڑ روپے سے زائد جرمانہ عائد کیا گیا۔

عدالتی فیصلے کے موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے انہیں اڈیالہ جیل کے بجائے لاہور جیل منتقل کرنے کی استدعا کی ۔خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اور ان کے ڈاکٹرز لاہور میں ہیں، جس پر جج ارشد ملک نے ریمارکس دئیے کہ نواز شریف کی درخواست پر فیصلہ میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر ہوگا۔ بعد ازاں محفوظ سناتے ہوئے احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کی کوٹ لکھپت جیل منتقلی کی درخواست منظو رکرلی اور ہدایت کی کہ محمد نوازشریف کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا جائے ۔

فیصلے کے بعد العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا گیا۔بعد ازاں عدالت کی جانب سے تحریری فیصلے میں نواز شریف کے علاوہ ان کے دونوں بچوں حسین اور حسن نواز کیخلاف ان کی غیر موجودگی میں دائمی وارنٹ جاری کردیئے گئے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ نیب دونوں کا نام اشتہاری ملزمان کی فہرست میں شامل کر کے کورٹ کے ریکارڈ میں لائے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حسن اور حسین کی عدالت میں پیشی تک ریفرنس کی فائل اور مواد ریکارڈ روم میں رکھا جائے۔ نجی ٹی وی کے مطابق131 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت نے ہل میٹل کمپنی کے تمام اثاثے بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف ہل میٹل کے بینی فیشل اونر ہیں، سعودی حکومت سے رابطہ کرکے حکومت ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے اثاثے ضبط کرے۔

فیصلے میں کہاگیا کہ نواز شریف بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ہیں ،استغاثہ نواز شریف پر بدعنوانی کا جرم ثابت کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف ثابت نہ کرسکے ہل میٹل سے ملی رقم ان کے ذرائع آمدن کے مطابق ہے ۔فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف اثاثوں کے جائز ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف کو نیب آرڈیننس سیکشن 10 کے تحت سزا سنائی جاتی ہے، نواز شریف کو کرپشن اورکرپٹ پریکٹسز کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف پر دس سال کیلئے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی عائد ہوگی ۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اگر نواز شریف کوئی عوامی عہدہ رکھتے ہیں تو فوری طور پر نا اہل ہونگے۔فیصلے کے مطابق اگر نواز شریف اس کیس میں گرفتار ہوئے ہیں تو جیل میں گزارہ گیا عرصہ سزا کی مدت میں شامل ہوگا۔ قبل ازیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ سننے کیلئے سابق وزیر اعظم نواز شریف احتساب عدالت پہنچے تھے جہاں ان کے ہمراہ حمزہ شہباز شریف اور کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھے۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر احتساب عدالت کے باہر کارکنوں کے رش کے باعث دھکم پیل دیکھی گئی اور پولیس اور کارکنوں کے درمیان کشیدگی دیکھنے میں آئی جس پر پولیس کی جانب سے کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا جبکہ لیگی کارکنوں نے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا۔ذرائع کے مطابق عدالت میں پیشی سے قبل نواز شریف نے فارم ہاؤس کا دورہ کیا جہاں وکیل خواجہ حارث اور حمزہ شہباز نے ان سے ملاقات کی۔

ادھر فیصلے کے پیش نظر احتساب عدالت کے اطراف سخت سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے اور رینجرز، پولیس، کمانڈوز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تعینات تھے جبکہ رجسٹرار کی اجازت کے علاوہ کسی کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی ۔وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ رہی اور اسلام آباد اور راولپنڈی انتظامیہ نے مختلف داخلی راستوں پر ناکہ بندی کر دی تھی ۔

دوسری جانب عدالتی فیصلے سے قبل ہی سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی اور مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب، دیگر لیگی رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد نواز شریف سے اظہار یکجہتی کیلئے عدالت پہنچی اور سابق وزیر اعظم کے حق میں نعرے بازی کی۔علاوہ ازیں عباس آفریدی کے فارم ہاؤس پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں سے غیر رسمی ملاقات کے دوران آئندہ کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس موقع پر نواز شریف نے کہا کہ مجھے کسی قسم کا خوف نہیں ،ْ کوئی غلط کام نہیں کیا جس پر سرجھکانا پڑے، میرا ضمیر مطمئن ہے۔نواز شریف نے کہا کہ ہمیشہ ایمانداری سے ملک اور عوام کی خدمت کی ہے، اس کیس میں کچھ بھی نہیں،اس ملاقات کے حوالے سے ذرائع کے مطابق پارٹی رہنما نواز شریف سے احتجاج کی حکمت عملی پوچھتے رہے تاہم سابق وزیر اعظم نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا اور یہ معاملہ پارٹی پر چھوڑ دیا۔

یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ روز نوازشریف اور شہبازشریف کی ملاقات کے دوران (ن )لیگی قیادت نے اتفاق کیا تھا کہ جو بھی فیصلہ آیا اس کے حوالے سے قانونی راستہ اختیار کیا جائیگا ،ْ فیصلہ خلاف آنے پر پارلیمنٹ کے اندر احتجاج کیا جائیگا۔واضح رہے کہ احتساب عدالت نمبر ایک اور 2 میں نوازشریف کے خلاف ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں۔العزیزیہ ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔

سابق وزیراعظم نوازشریف مجموعی طور پر 130 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، نوازشریف 70 بار جج محمد بشیر اور 60 بار جج ارشد ملک کے روبرو پیش ہوئے۔ایون فیلڈ میں سزا کے بعد نوازشریف کو 15 بار اڈیالہ جیل سے لاکر عدالت پیش کیا گیا۔احتساب عدالت نمبر ایک میں 70 میں سی65 پیشیوں پر مریم نواز نوازشریف کے ساتھ تھیں۔احتساب عدالت نے مختلف اوقات میں نوازشریف کو 49 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا، جج محمد بشیر نے 29 جبکہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کو 20 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا۔

یاد رہے کہ 28 جولائی 2017 کو پاناما پیپرز اسکینڈل میں سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیدیا تھا جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ سے بھی نااہل ہوگئے تھے۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا، ساتھ ہی احتساب عدالت کو حکم دیا تھا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے۔

عدالتی حکم کے مطابق نیب نے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس تیار کیا تھا جبکہ نواز شریف، اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس بھی دائر کیا گیا تھا۔20 اکتوبر 2017 کو نیب فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر فردِ جرم عائد کی تھی اور ان کے دو صاحبزادوں، حسن نواز اور حسین نواز کو مفرور ملزم قرار دیا تھا۔

یاد رہے کہ ابتدائی طور پر اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر ان تینوں ریفرنسز کی سماعت کررہے تھے اور انہوں نے ہی 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک ایک سال قید کی سزا سنائی تھی تاہم بعد ازاں شریف فیملی نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا تھا جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپ دی گئی تھی۔

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی جانب سے اپنی سزاؤں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں تھیں جنہیں 16 جولائی کو سماعت کیلئے مقرر کردیا گیا تھا۔بعد ازاں اس درخواست پر سماعتوں کے بعد 19 ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزاؤں کو معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سزا معطلی کی درخواست منظور کرتے ہوئے مختصر فیصلہ سنایا تھا۔فیصلے میں کہا گیا تھا کہ درخواست دہندگان کی اپیلوں پر فیصلہ آنے تک سزائیں معطل رہیں گی جبکہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو 5، 5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا تھا۔ایون فیلڈ ریفرنس کی سزا معطلی کے باوجود العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی طویل سماعت احتساب عدالت میں ہوئی تھی اور 19 دسمبر کو جج ارشد ملک نے دونوں ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

واضح رہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے حسن اور حسین نواز کے خلاف دونوں ریفرنسز میں معاملہ سعودی عرب میں العزیزیہ اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ اور برطانیہ میں فلیگ شپ انویسٹمنٹ کے قیام سے متعلق ہے اور ان ریفرنسز میں احتساب عدالت نے نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 (ای) (وی) کے تحت سابق وزیر اعظم پر چارج کیا تھا۔نیب کے خصوصی پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس کیس کے نتیجے میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ کمپنیاں کس طرح اور کس ذرائع سے قائم کی گئیں۔

شریف خاندان کی جانب سے عدالت میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ نواز شریف کے والد مرحوم میاں محمد شریف نے 1974 میں متحدہ عرب امارات میں گلف اسٹیل ملز (جی ایس ایم) قائم کی۔درخواست کے مطابق 1978 میں گلف اسٹیل ملز کے 75 فیصد شیئرز عبداللہ خید اہلی کو فروخت کیے اور 1978 میں کمپنی کا نام اہلی اسٹیل ملز (اے ایس ایم) رکھ دیا گیا، اس کے بعد 1980 میں بقیہ 25 فیصد شیئرز بھی اے ایس ایم کو فروخت کردئیے گئے۔

اس فروخت سے ایک کروڑ 20 لاکھ درہم حاصل ہوئے، جسے قطری شاہی خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری میں استعمال کیا گیا۔بعد ازاں شریف خاندان کی جلاوطنی کے دوران مرحوم میاں شریف نے سعودی عرب میں العزیزیہ اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ اور برطانیہ میں فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور 16 دیگر کمپنیاں قائم کرنے کیلئے حسین نواز کے لیے 54 لاکھ جبکہ حسن نواز کے لیے 42 لاکھ درہم فراہم کیے تاہم پراسیکیوشن کے مطابق شریف خاندان ان کمپنیوں کے قیام کے لیے فراہم کیے گئے فنڈز کے ذرائع بتانے میں ناکام رہا، جس کے بعد یہ آمدن سے زائد اثاثوں کا معاملہ بنتا ہے۔

پراسیکیوشن کے مطابق شریف خاندان کا موقف ہے کہ مرحوم میاں شریف کی جانب سے قطری شاہی خاندان کے ساتھ ایک کروڑ 20 لاکھ درہم کی سرمایہ کاری کی گئی لیکن قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جابر التھانی اس تفیصل کی تصدیق کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔اس کیس کے حتمی دلائل کے دوران وکیل دفاع نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی نے شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کیونکہ اس سے ڈیفنس کے کیس کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔
Live مریم نواز سے متعلق تازہ ترین معلومات