سندھ میں میری اور میرے خاندان کی زندگیاں خطرے میں ہیں،ہمیں تحفظ کون دے گا ، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا

ہم اشاروں پر چلنے والے نہیں ، اپوزیشن عالمی سطح پر پاکستان کیلئے مثبت تاثر کو اپنی سیاست کیلئے خراب نہ کرے،جتنی دھاندلی سندھ میں ہوئی ہے اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئی، احتساب بھی چلے گا اور جمہوریت بھی آگے بڑھے گی، قومی اسمبلی میں خطاب

جمعہ 22 فروری 2019 16:01

سندھ میں میری اور میرے خاندان کی زندگیاں خطرے میں ہیں،ہمیں تحفظ کون ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2019ء) وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا ہے کہ سندھ میں میری اور میرے خاندان کی زندگیاں خطرے میں ہیں،ہمیں تحفظ کون دے گا ، ہم اشاروں پر چلنے والے نہیں ، اپوزیشن عالمی سطح پر پاکستان کیلئے مثبت تاثر کو اپنی سیاست کیلئے خراب نہ کرے،جتنی دھاندلی سندھ میں ہوئی ہے اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئی، احتساب بھی چلے گا اور جمہوریت بھی آگے بڑھے گی۔

جمعہ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی پالیسی نہیں چلے گی، ہمیں معلوم ہے کہ سندھ میں انہیں پلیٹ میں رکھ کر سیٹیں دی گئیں، جتنی دھاندلی سندھ میں ہوئی ہے اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئی، ایوان کے تقدس کی بات کرنے والے سپیکر کی کرسی کا گھیرائو رہے ہیں، سب سے بڑی جماعت کا دعویٰ کرنے والے سپیکر کی کرسی کا تقدس پامال کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سندھ میں اپنی جان پر کھیل کر میں اس اسمبلی تک پہنچی ہوں، احتساب بھی چلے گا اور جمہوریت بھی آگے بڑھے گی۔ انہوں نے کہاکہ سید خورشید شاہ اور نوید قمر کو میرے بولنے پر کیوں اعتراض ہی ، ایوان میں آمریت کے دور کی روایات کو پروان چڑھانے کی یہ کوشش کر رہے ہیں، اپنے اندر انہیں برداشت کا مادہ پیدا کرنا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ سندھ صرف نوابشاہ، لاڑکانہ اور خیرپور نہیں ہے، پورے صوبے کی دولت لوٹ کر یہ ان علاقوں میں لے گئے ہیں، خورشید شاہ کو ملک کی پہلی خاتون سپیکر کا نام کیوں بھول گیا ہے۔

انہوںنے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ پر حملہ کرنے والے کون تھے، سب جانتے ہیں، ہمارے اوپر 32 مقدمات کس نے درج کرائے ہیں، یہ بھی سب کو علم ہے، میری اور میرے خاندان کی زندگیوں کو سندھ میں آج بھی خطرہ ہے، ہمیں تحفظ کون دے گا۔ فہمیدہ مرزا نے کہا کہ ہم اشاروں پر چلنے والے نہیں ہیں، ہمارے گھروں پر 1997ء میں بھی اسی طرح چھاپے مارے جاتے تھے۔ انہوںنے کہاکہ شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ جس طرح سلوک کیا گیا، ویسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میرپور خاص، تھرپارکر اور بدین میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں، ان کے لئے یہ اس طرح کے تماشے کیوں نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بحیثیت سپیکر پارلیمنٹ کا تقدس برقرار رکھا اور کینسر کی حالت میں بھی ملک کے جھنڈے اور جمہوریت کو سربلند رکھا، سارک کانفرنس کا انعقاد کرایا جس میں بھارت اور بنگلہ دیش کے سپیکر بھی پاکستان آئے، پارلیمنٹ کی بالادستی کو کسی موقع پر کم نہیں ہونے دیا اور پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والوں کو بھی برابر مواقع دیئے، خواتین کے وقار کے لئے وومن کاکس بنایا، خواتین کو احتجاج کے لئے استعمال کرنے کی روایت ختم کی۔

انہوںن ے کہاکہ آج خورشید شاہ خواتین ارکان کو اشارے کر کر کے احتجاج کے لئے آگے بلا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کو چیلنجوں کا سامنا ہے، مسئلہ کشمیر اور پاکستان اور بھارت کی اس وقت جو صورتحال ہے، اس کے حوالے سے ہمیں ایک مضبوط پیغام یہاں سے دینا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے جو پیغام دیا ہے اور دنیا جس طریقے سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے، اپوزیشن عالمی سطح پر پاکستان کیلئے پائے جانے والے اس مثبت تاثر کو اپنی سیاست کے لئے خراب نہ کرے۔

انہوںنے کہاکہ آج کرنٹ اکائونٹ خسارے، برآمدات کی صورتحال اور معیشت میں جو بہتری ہو رہی ہے اس کی وجہ سے سرمایہ کار پاکستان کے چاروں صوبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، بحیثیت وزیر بین الصوبائی رابطہ تمام صوبوں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کی مشاورت سے فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ قبل ازیں اجلاس کے دور ان جب مراد سعید کی تقریر کے بعد ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو مائیک دیا تو اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور احتجاج شروع کر دیا تاہم ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا نام پہلے سے آیا ہے، اس لئے انہیں بولنے دیا جائے، اس دوران کراچی سے رکن قومی اسمبلی رفیع اللہ سپیکر ڈائس کے پہنچے اور انہوں نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑیں۔

ڈپٹی سپیکر نے سخت الفاظ میں ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وہ شائستگی سے بات کریں۔ اس دوران اپوزیشن کے دیگر ارکان بھی سپیکر ڈائس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور احتجاج شروع کر دیا تاہم ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سابق سپیکر ہیں اور ان کا نام پہلے سے آیا ہوا ہے، ان کی بات سننی چاہیے۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان مسلسل احتجاج کرتے رہے۔ سپیکر کے بار بار متنبہ کرنے کے باوجود اپوزیشن ارکان نے نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری رکھا ۔اجلاس کے دوران اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی اور کورم کی کمی کی وجہ سے ایجنڈے کی کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔بعد ازاں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی سہ پہر چار بجے تک ملتوی کر دیا۔