Live Updates

پاکستان کا مسلہ کرپشن نہیں ‘آئین کی بالادستی ہے . حامد میر

پارلیمانی نظام یا آئین کو چھیڑا گیا تو 1971 سے بھی زیادہ بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں. انٹرویو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 10 جون 2019 09:53

پاکستان کا مسلہ کرپشن نہیں ‘آئین کی بالادستی ہے . حامد میر
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 جون۔2019ء) سنیئرصحافی‘اینکرپرسن اور تجزیہ نگار حامد میر نے کہا ہے کہ کرپشن پاکستان کا مسلہ نہیں ‘آئین کی بالادستی ملک کا سب سے بڑا مسلہ ہے‘ اگر یہ ہوجائے، تو ہمارے سارے مسائل حل ہو جائیں گے، تمام مسائل کا حل 1973 کے آئین میں موجود ہے. کرپشن کا الزام سیاست دانوں پر آتا ہے جبکہ غیر سیاست دان بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں.

(جاری ہے)

پرویز مشرف کے اکاﺅنٹ میں اربوں روپے ہیں نیب ان سے نہیں پوچھتا کہ یہ کہاں سے آئے؟ صرف زرداری اور نواز شریف سے کیوں جواب مانگے جاتے ہیں؟ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اس سے بھی زیادہ خطرناک اور سنگین حالات سے گزرا ہے، لیکن موجودہ حالات کے بارے میں میرا مختصر تبصرہ یہ ہے کہ اگر 1973 کا آئین برقرار رہتا ہے اور پارلیمانی نظام چلتا رہتا ہے، تو ہم بہت سے مسائل سے نجات پالیں گے لیکن اگر خدا نہ خواستہ پارلیمانی نظام کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی یا آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی، تو 1971 سے بھی زیادہ بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں.

موجودہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں، کیوں کہ اگر اسے غیر آئینی طور پر یا زبردستی ہٹانے کی کوشش کی گئی، تو بہت زیادہ انتشار پھیلے گا‘یقیناً اس حکومت کو ہٹانے کے لیے آئین میں بہت سے راستے موجود ہیں، لیکن مَیں سمجھتا ہوں، اس حکومت کو ہٹا کر جو بھی حکومت آئے گی، اسے ان سے برے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا. اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے، بہتر ہے حکومت اور اپوزیشن مل کر معیشت بہتر بنانے کی کوشش کریں اگر یہ ایک دوسرے سے لڑتے رہے، تو حالات مزید خراب ہوں گے.

ایک سوال کے جوا ب میں انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت سے حالات سنبھالے نہیں جا رہے، کچھ اس میں ان کی نالائقیوں کا بھی عمل دخل ہے، لیکن موجودہ حالات کی ذمہ دار ماضی کی حکومتیں بھی ہیں‘ میرے نزدیک ہر حکومت نے اس ملک کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالا ہے. انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کے دن اس وقت بدلیں گے، جب وہ خود اپنے آپ کو بدلیں گے کوئی باہر سے آکر ان کی حالت نہیں بدلے گا جھوٹ، فریب، ملاوٹ، بددیانتی، رشوت، ذخیرہ اندوزی، منافقت ہماری رگوں میں خون کی طرح سرایت کر گئی ہے ہم خود تو برائیوں میں لتھڑے ہوں اور پھر سوچیں کہ باہر سے آکر کوئی ہماری حالت بدل دے گا، یہ تو ممکن نہیں.

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ کرکٹربننا چاہتے تھے اور ان کے والد کی بھی یہی خواہش تھی مگر وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صحافت میں آگئے پھر والد صاحب کی وفات کے بعد جب بے نظیر بھٹو تعزیّت کے لیے ہمارے گھر آئیں، تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا کررہے ہو؟ تو میں نے بتایا کہ کرکٹ کھیل رہا ہوں انہوں نے کہا اسے چھوڑو اپنے والد کے نقش قدم پر چلو، انہوں نے جو کچھ چھوڑا ہے، اسے آگے بڑھاﺅ.

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کشمیر کی آزادی میرا خواب ہے، تو یہ 1996 کا زمانہ تھا، جب میں ایک اخبار کا ایڈیٹر تھاایک دن میں نے کیمرا مین سے کہا کہ ہم بارڈر پار کرکے مقبوضہ کشمیر چلتے ہیں اور وہاں بھارتی فوج نے جو قتل وغارت شروع کر رکھی ہے، اس کی موقعے پر تصاویر بناتے ہیں وہ بھی راضی ہو گیا. ہم نے بارڈر کراس کرنے کی کوشش کی، لیکن اس وقت میرا وزن زیادہ تھا، کوشش کے باوجود ہم پہاڑی علاقہ عبور نہ کر سکے 1995 میں جب کشمیریوں کی جدوجہدآزادی عروج پر تھی اور پاکستان اس گرتی دیوار کو تھوڑا سا دھکا لگا کر بہت کچھ کر سکتا تھا، لیکن اس وقت ہمارے یہاں حکومت اور اپوزیشن دست وگریبان تھے‘ نواز شریف اور بے نظیر کی لڑائی زوروں پر تھی، مختلف ریاستی ادارے بھی اس لڑائی کا حصّہ تھے اس میں ہم نے کشمیر کی تحریکِ آزادی کو نظرانداز کر دیا.

اس کے بعد 1999 میں موقع آیا جب کارگل جنگ لگی جنگ سے تین ماہ پہلے تین صحافیوں کو پرویز مشرف نے خصوصی طور پر ایک ملاقات میں کہا کشمیر جلد آزاد ہو جائے گا‘آپ کشمیر کاز کی حمایت کریں انہوں نے کہا ہم صرف تین دن میں کشمیر آزاد کروالیں گے جس پر میں نے فوراً حمایت کا یقین دِلایا‘ ہمارے سینئر ساتھی، ضیاءالدین نے باہر آکر کہا محض باتیں ہیں یہ لوگ صرف ہمیں فتح کر سکتے ہیں کشمیر فتح نہیں کرسکتے.

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو تباہ کرنے میں آمریت کا بہت بڑا ہاتھ ہے ان آمروں کو ہمیشہ امریکا نے مدد فراہم کی. کہا جاتا ہے ایوب خان کے دور میں ملک نے بڑی تر قی کی لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اسی دور میں بڈھ بیر کا فوجی اڈا امریکا کے حوالے کیا گیا جہاں سے سویت یونین کی جاسوسی کی جاتی تھی‘ حکومت نے پاکستان کو سیٹو، سینٹو میں بھی گھسا دیا، بعد میں ضیاءالحق کے دور میں پاکستان، امریکا کی پراکسی وار لڑتا رہا‘ مشرف کے دور میں نیٹو الائنس کی بنیاد رکھی گئی، مشرف نے بھی پاکستان کے فوجی اڈے امریکا کے حوالے کر دیئے.

اگر کوئی سیاست دان ایسا کرتا، تو اسے غدار قرار دے دیا جاتا، لیکن آمر پاکستانیوں کا سودا کرتے رہے اور ان کا آج تک کوئی احتساب نہیں ہوا، لیکن میں ان سیاست دانوں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیتا، جو ان ڈکٹیٹرز کی حکومتوں میں شامل رہے‘ ایک زمانے میں نواز شریف بھی ایسی حکومت میں شامل تھے اور عمران خان نے بھی جنرل پرویز مشرّف کے ریفرنڈم کی حمایت کی تھی.
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات