سرینگر: فاروق عبداللہ کی بہن ، بیٹی سمیت 12 خواتین گرفتار

مرکزی پارک میں خواتین نے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن میں درج تھا کہ ‘بنیادی حقوق کا احترام کریں اور جموں و کشمیر کی حیثیت کو کیوں کم کردیا گیا

منگل 15 اکتوبر 2019 23:53

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 اکتوبر2019ء) مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی پولیس نے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کم ازکم 12 خواتین کو بھارت مخالف احتجاج پر گرفتار کرلیا۔ سری نگر کے مرکزی پارک میں خواتین نے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن میں درج تھا کہ ‘بنیادی حقوق کا احترام کریں اور جموں و کشمیر کی حیثیت کو کیوں کم کردیا گیا ہے’۔

پولیس نے انہیں شہر کے کاروباری علاقے لال چوک کی طرف مارچ کرنے کی کوشش پر قریبی تھانے میں روک لیا۔خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے دو ماہ تک مکمل بلیک آئوٹ کے بعد گزشتہ روز پوسٹ پیڈ موبائل فون سروس بحال کردی تھی جبکہ انٹرنیٹ اور پری پیڈ سروس تاحال معطل ہے۔بھارت نے جیسے ہی پابندیوں میں کچھ نرمی کی کشمیریوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا ہے اور خواتین کی جانب سے بھی بھارت مخالف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)

فاروق عبداللہ کی بہن ثریا عبداللہ اور بیٹی صوفیا عبداللہ خان کے علاوہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے سابق چیف جسٹس بشیر احمد خان کی اہلیہ حوا بشیر خان کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔سری نگر میں گرفتار ہونے والی دیگر خواتین میں انسانی حقوق کے معروف رضاکاروں اور تعلیم سے وابستہ خواتین شامل ہیں۔مقبوضہ جموں و کمشیر کے سابق وزیراعلیٰ 81 سالہ فاروق عبداللہ کو 5 اگست کو مقبوضہ وادی میں نافذ کرفیو کے دوران نظر بند کردیا گیا تھا جبکہ ان کے بیٹے عمر عبداللہ کو باقاعدہ طور پر گرفتار کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں بھارت پولیس نے فاروق عبداللہ کو 16 ستمبر کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت باقاعدہ گرفتار کیا تھا اور ان کے گھر کو سب جیل قرار دیا تھا۔بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی اور دیگر معروف سیاسی رہنمائوں کو گرفتار کیا تھا۔حریت کانفرنس کے رہنمائوں سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق سمیت دیگر کو بھی گرفتار کیا جاچکا ہے جن کی گرفتاری کو دو ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے جبکہ یاسین ملک طویل عرصے سے بھارت کے تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

واضح رہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں 5 اگست سے 4 ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے جس میں 144 کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں اور متعدد افراد کو متنازع قانون کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔