Live Updates

آنے والے دو چار ماہ میں عمران خان کی وزارت عظمیٰ کو چیلنج ہو سکتا ہے

چودھری شجاعت حسین کے بیانات معنی خیز بھی ہیں اور پیغام بھی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 15 نومبر 2019 12:39

آنے والے دو چار ماہ میں عمران خان کی وزارت عظمیٰ کو چیلنج ہو سکتا ہے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 15 نومبر 2019ء) : صحافی و کالم نگار صابر شاکر نے اپنے حالیہ کالم میں کہا کہ گیم چینجز شہباز شریف نے انتہائی خاموشی اور برق رفتاری سے جو کچھ حاصل کیا تھا اسے کسی کی نظر لگ گئی اور شریف خاندان کے سوشل میڈیا پر جشنِ فتح کے پیغامات نے ان سنسرز کو بھی آن کر دیا جن کی پہنچ سے دور یہ معاملات کامیابی کے قریب پہنچے تھے۔

رہا سہا کام خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں اس تقریر نے کر دیا جس میں انہوں نے وسط مدتی انتخابات کی نوید اور حکومت کو خطرے کا طعنہ دے مارا۔ اس تقریر کے بعد عمران خان نے اپنے معتمد خاص اور ان کی سفارش پر تعینات ان کے دستِ راست افسر کی بے خبری پر ان کی اچھی خاصی ڈانٹ ڈپٹ کی۔ جس کے بعد وزیراعظم نے حتمی طور پر معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور جو کچھ کر سکتے تھے وہ انہوں نے کر دکھایا اور مزید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

عمران خان کو بھی ان کے چودھری نثار مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہ دیں اور گرم پانیوں اور آگ کے گولوں کے قریب نہ جائیں، لیکن عمران خان نے فرںٹ فٹ پر جارحانہ کھیل کھیلنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنا ووٹ بینک اور اپنا بیانیہ برقررا رکھتے ہوئے آئندہ الیکشن لڑ سکیں۔صابر شاکر نے کہا کہ عمران خان کو جاری سیاسی کھیل کا اندازہ ہو چکا ہے اس لیے وہ اب مزید وزن اُٹھانے کے موڈ میں نظر نہیں آتے، یہاں تک کہ اگر نئےمینڈیٹ کے لیے جانا پڑے تو وہ اس کے لیے بھی تیار نظر آتے ہیں۔

مولانا ، پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور خاص طور پر خواجہ آصف کا بیک وقت مطمئن نظر آنا اور ڈی جی آئی ایس پی آر کایہ کہنا ، پاک فوج کسی پارٹی کےساتھ نہیں ہے اور ہر جمہوری اور آئینی حکومت کے ساتھ ہوتی ہے، سے بہت کچھ واضح نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دو سے چار ماہ کے دوران ایسی سیاسی ڈیولپمنٹس ہوں کہ جن سے پہلا چیلنج عمران خان کی وزارت عظمیٰ کو ہو سکتا ہے۔

کیونکہ وزارت عظمیٰ محض نو ووٹوں کے قلیل اور بے گانے سہارے پر کھڑی ہوئی ہے۔ صابر شاکر نے کہا کہ چودھری شجاعت حسین کے بیاناے معنی خیز بھی ہیں اور پیغام بھی۔ دو اتحادی جماعتوں کے الگ ہونے سے نو ووٹوں کا فرق ختم ہو جاتا ہے اور کھیل اپوزیشن کے پاس جا سکتا ہے لیکن دوسرا خطرہ عمران خان صاحب کا جارحانہ مزاج ہے جس کی وجہ سے وہ خود بھی انتخابات کی جانب جا سکتے ہیں۔

دھرنے اور نواز شریف ، دونوں نے شک کا بیج بو دیا ہے، اس کی آبیاری کتنی جلدی ہو سکتی ہے اس کا انحصار پاور پلئیرز کے موڈ پر ہے اور کم سے کم تمام اپوزیشن جماعتیں وسط مدتی انتخابات پر متفق نظر آتی ہیں جو کہ ایک جمہوری اور سو فیصد آئینی مطالبہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان اگر اپنی وزارت عظمیٰ کے پانچ سال پورے کر لیں تو یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا سیاسی معجزہ ہو گا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات