سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان طویل علالت کے باعث90سال کی عمرمیں انتقال کرگئے

سابق ناظم کراچی کافی عرصے سے بیمار تھے، مرحوم کی نماز جنازہ آج اداکی جائے گی، ترجمان جماعت اسلامی

منگل 25 فروری 2020 13:44

سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان طویل علالت کے باعث90سال کی عمرمیں انتقال ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 فروری2020ء) سابق سٹی ناظم کراچی اورجماعت اسلامی کے سینئررہنما نعمت اللہ خان طویل علالت کے باعث90سال کی عمرمیں انتقال کرگئے ہیں۔ترجمان جماعت اسلامی نے نعمت اللہ خان کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ سابق ناظم کراچی کافی عرصے سے بیمار تھے، مرحوم کی نماز جنازہ آج(بدھ)اداکی جائے گی۔ترجمان جماعت اسلامی کے مطابق نعمت اللہ خان کلفٹن کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے،ان کا کا انتقال پیران سالی کے باعث ہوا ہے، سابق سٹی ناظم کراچی کا جسد خاکی اسپتال سے ڈیفنس میں واقع ان کے بیٹے کی رہائش گاہ پرمنتقل کیاگیابعدازاں ان کاجسد خاکی تدفین ہونے تک سرد خانے منتقل کردیا گیاہے۔

ایک کامیاب وکیل، ایک متحرک فلاحی شخصیت اور ایک بے مثال ناظم کی پہچان رکھنے والے نعمت اللہ خان ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے،نعمت اللہ خان یکم اکتوبر1930 کو مشہور مسلم بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری کی نگری اجمیر شریف کے علاقے شاہجہاں پور میں پیدا ہوئے۔

(جاری ہے)

ابتدائی تعلیم شاہجہاں پور اور اجمیر سے ہی حاصل کی۔آپ کے خاندان نے 1948میں شاہجہاں پور، انڈیا سے پاکستان کی طرف ہجرت کی اور کراچی میں آبسا،کراچی آمد کے بعد ابتدائی دنوں میں آپ کے اہل خانہ کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کئی سال تک ایک کمرے کے مکان میں زندگی گزارنا پڑی، اعلی تعلیم کے حصول اور خاندان کی بقا کے لیے آپ نے سخت جدوجہد کی اور پارٹ ٹائم جاب کے علاوہ ٹیوشن کے ذریعے زندگی کی گاڑی چلائی۔

پاکستان ہجرت کے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیاجبکہ فارسی لٹریچر میں ماسٹر ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی،کراچی یونیورسٹی سے ہی آپ نے صحافت میں ڈپلومے کے علاوہ ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا،بعد ازاں انکم ٹیکس وکیل کے طور پر وکالت کا آغاز کیا۔زمانہ طالب علمی میں آپ نے تحریک پاکستان میں ایک فعال کارکن کے طور پر کام کیا۔

اس وقت آپ کی عمر صرف پندرہ برس تھی اور آپ ابتدائی کلاسوں کے طالب علم تھے۔ اسی زمانے میں آپ نے شاہجہاں پور کے مسلم رکن قانون سا زاسمبلی کے ہمراہ قائد اعظم کی سربراہی میں ہونے والی آل انڈیا مسلم لیجسلیٹرز کانفرنس میں شرکت کی۔1946 سے قیام پاکستان تک آپ مسلم لیگ نیشنل گارڈ ضلع اجمیر کے منتخب صدر رہے۔تحریک پاکستان کے دوران اسلامیان برصغیر پاک وہند سے کیے جانے والے وعدوں کو عملی شکل دینے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کے لیے آپ نی1957 میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی، اور اس پیرانہ سالی کے باوجود اب تک اس خواب کی تعبیر پانے کے کے لیے مصروف عمل ہیں۔

آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے جماعت کی رکنیت کا حلف خانہ کعبہ میں اٹھایا۔ حلف لینے والے پروفیسر غفور احمد تھے۔ شاید اسی کا اثر ہے کہ آپ کی جماعت سے اٹوٹ وابستگی میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کے بعد آپ کراچی جماعت کے نائب امیر اور ایک عرصہ تک امیر رہے۔ آج کل نائب امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے۔وہ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے بھی وابستہ رہے اور بعد ازاں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔

وہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر تھے لیکن شہری حکومت کے ناظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ضابطے کی کارروائی کے تحت جماعت اسلامی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیاتھا۔1985کے غیر جماعتی الیکشن میں آپ سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ اور اپوزیشن ارکان نے اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے لیے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا۔1988 میں اسمبلی کی تحلیل تک تقریبا ساڑھے تین سال اپوزیشن لیڈر کے منصب پر فائز رہے۔

اس دوران آپ نے کراچی اور سندھ کے عوام کی ترجمانی حق ادا کیا اور بھرپور انداز میں عوامی مسائل اسمبلی میں اٹھائے۔2001 میں متعارف کرائے جانے والے ضلعی حکومتوں کے نظام کے بعد نعمت اللہ خان کراچی کے پہلے ناظم منتخب ہوئے۔ ایک نئے نظام میں منی پاکستان کہلانے والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی نظامت ایک بہت بڑا چیلنج تھی لیکن آپ نے عزم و ہمت، انتھک محنت اور امانت و دیانت کے ذریعے شہر کراچی اور اس کے باسیوں کی بے مثال خدمت کرکے اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کیا، اورچار سال کے مختصر عرصے میں کراچی کی شکل یکسر بدل کے رکھ دی۔

نعمت اللہ خان جب ناظم کراچی منتخب ہوئے تو شہر کی آبادی پانچ فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی تھی لیکن اس کے مقابلے میں شہر کے اندر شہری سہولیات کا فقدان اور ترقیاتی کاموں کا کہیں وجود نہیں تھا۔ شہری انفراسٹرکچر تباہ حال تھا اور پورا شہر کسی اجاڑ جنگل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تقریبا تمام بڑی شاہراہیں اور اندرونی راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے، بڑی چورنگیوں پر گھنٹوں ٹریفک جام رہتا، سیوریج کا نظام ابتر تھا، اورکبھی روشنی کا شہر کہلانے والے کراچی کی سڑکیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

اس صورتحال سے گھبرانے کے بجائے بہتر حکمت عملی سے آپ نے اس تیز رفتاری سے ترقیاتی کام کرائے اور شہری سہولیات فراہم کیں کہ پاکستان اور اس خطے میں اس کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔شاہ فیصل کالونی سے کورنگی انڈسٹریل ایریا تک ملیر ندی پر فلائی اوور جیسا منصوبہ ان کے دورِ نظامت میں تعمیر کیا گیا۔ان کے دور میں کراچی میں 18 فلائی اوورز، چھ انڈر پاسز اور دو سگنل فری کاریڈورز بنے۔

ان دنوں خبروں کی زینت بننے والا کے فور منصوبہ پر غور اور پلاننگ سب سے پہلے ان ہی کے دور میں ہوئی۔شہر کی بڑھتی آبادی اور سفری ضروریات دیکھتے ہوئے گرین لائن بس منصوبے کے تحت سویڈن سے بسیں درآمد کی گئیں۔انہوں نے اپنے عہدے سے 2005 میں استعفیٰ دے دیاتھا تاہم وہ اگلے بلدیاتی انتخابات میں جیت حاصل نہ کرسکے ۔نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ مرحوم نے بحیثیت چیئرمین الخدمت فائونڈیشن صحرائے تھر کے رہنے والوں کو پانی اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کئی منصوبے شروع کیے۔

جماعت اسلامی میڈیا سیل کے مطابق نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی نمازِ جنازہ آج(بدھ)ادا کی جائے گی۔دوسری جانب وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے نعمت اللہ خان کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ترجمان وزیراعلی سندھ کے مطابق مراد علی شاہ نے مرحوم نعمت اللہ خان کی مغفرت کیلئے دعا کی۔نعمت اللہ خان کے بعد کراچی کے میئر بننے والے مصطفی کمال نے کہا کہ جماعت اسلامی کے رہنما شہر قائد کا اہم اثاثہ تھے۔انہوں نے کہا کہ فیصلہ کررکھا تھا کہ ان کے بارے ایک لفظ نہیں بولوں گا، وہ کراچی کی بڑی آواز تھے۔