کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کررہے ہیں ، فی الحال کرفیو نہیں لگاسکتے،وزیراعظم عمران خان

اگر خدانخواستہ کرفیو لگانا پڑا تو پہلے پوری تیاری کرنی ہوگی،یہ ٹی ٹوئنٹی کا میچ نہیں، ہوسکتا ہے صورتحال 6 مہینے چلے، ہمیں افراتفری کے بجائے دانشمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے،ٹرانسپورٹ بندکرنے سے سب سے بڑامسئلہ سپلائزکا آتا ہے، لوگوں کوپکڑکے جیلوں میں ڈالاگیاتووہاں بھی کوروناپھیل سکتاہے،اٹھارویں ترمیم کے بعدصوبے خودفیصلہ کرتے ہیں ہم صرف تجویزکرسکتے ہیں،سب سے زیادہ خطرہ کورونا سے نہیں ،غلط فیصلوں سے ہوسکتا ہے، سینئر صحافیوں سے گفتگو وزیراعظم عمران خان کا کورونا وائرس کے پیش نظر مختلف شعبہ جات کیلئے تقریباً880ارب روپے کے ریلیف پیکج کااعلان پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پندرہ روپے فی لیٹر کمی،بجلی اور گیس کے بل قسطوں میں ادا کئے جاسکیں گے ،طبی سامان کیلئے 50 ارب روپے مختص کھانے پینے کی اشیا پر بھی ٹیکس کم ،مزدوروں کیلئے 200 ارب روپے وقف ،ایکسپورٹ انڈسٹری کو فوری بنیاد پر 100 ارب روپے کے ٹیکس ری فنڈ فراہم کیے جائیں گے، چھوٹی صنعت اور زرعی شعبے کیلئے بھی 100 ارب روپے وقف کیے گئے ہیں ،ان کیلئے کم سود پر قرضے بھی دیے جائیں گے میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں ،میڈیا ورکرز کے لیے بھی پیکج تیار کیا جائے، معاون خصوصی کو ہدایت

منگل 24 مارچ 2020 22:40

کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کررہے ہیں ، فی الحال ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 مارچ2020ء) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کررہے ہیں تاہم فی الحال کرفیو نہیں لگاسکتے، اگر خدانخواستہ کرفیو لگانا پڑا تو پہلے پوری تیاری کرنی ہوگی،یہ ٹی ٹوئنٹی کا میچ نہیں، ہوسکتا ہے صورتحال 6 مہینے چلے، ہمیں افراتفری کے بجائے دانشمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے،ٹرانسپورٹ بندکرنے سے سب سے بڑامسئلہ سپلائزکا آتا ہے، لوگوں کوپکڑکے جیلوں میں ڈالاگیاتووہاں بھی کوروناپھیل سکتاہے،اٹھارویں ترمیم کے بعدصوبے خودفیصلہ کرتے ہیں ہم صرف تجویزکرسکتے ہیں،سب سے زیادہ خطرہ کورونا سے نہیں ،غلط فیصلوں سے ہوسکتا ہے۔

منگل کو یہاں سینئر صحافیوں سے گفتگو میں وزیر اعظم عمران خان نیملک میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل ،اس کے اثرات سے نمٹنے کیلئے تقریباً 880 ارب روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان کر تے ہوئے کہا کہ بدقسمتی ہے ملک میں فیصلے چھوٹے سے الیٹ طبقے کو دیکھ کر کیے جاتے ہیں غلط فیصلہ کرکے معاشرے میں تباہی نہیں لانا چاہتے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم نے مزدور طبقے کے لیے 200ارب روپے مختص کیے ہیں اور اس علاوہ ہم صوبوں سے مشاورت کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر بے روزگار ہونے والے مزدوروں کے لیے کاروباری برادری سے بھی بات کر رہے ہیں کہ وہ صنعت بند ہونے کی صورت میں انہیں نوکریوں سے فارغ نہ کریں۔وزیر اعظم نے کہاکہ اس وقت ایکسپورٹ اور انڈسٹری سب سے زیادہ متاثر ہے اور ان کے لیے ہم نے دو فیصلے کیے ہیں جس کے تحت انہیں فوری طور پر 100ارب کے ٹیکس ری فنڈ کر دیے جائیں گے تاکہ ان کے پاس فوری طور پر رقم میسر ہو تاکہ یہ اپنے مزدوروں پر بھی خرچ کر سکیں۔

انہوں نے نے کہا کہ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعت کے لیے ساتھ ساتھ زراعت کے لیے 100ارب روپے رکھے ہیں اور ان کے قرض پر سود کی ادائیگی موخر کرا دیںگے جبکہ ان کو رعایتی قرض بھی دیا جائے گا اور اس کے علاوہ کسانوں کے ان پٹ بڑھانے کیلئے ہم نے اس میں پیسا رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سب سے زیادہ مشکل حالات میں زندگی گزارنے والے خاندانوں کے لیے 4مہینے کیلئے 150ارب روپے رکھ رہے ہیں جس کے تحت ان خاندانوں کو 3ہزار روپے ماہوار دیے جائیں گے اور ہماری کوشش ہو گی کہ اس میں صوبے بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں تاکہ ہم ان کی مزید مدد کر سکیں۔

عمران خان نے کہا کہ ہم پناہ گاہوں میں توسیع کریں گے کیونکہ جو موجودہ پناہ گاہوں میں بہت رش ہے اور ہم بہت زیادہ احتیاط کے ساتھ ان کی مکمل چیکنگ کر کے دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں بیروزگاری کو دیکھتے ہوئے پناہ گاہوں میں توسیع کریں گے تاکہ لوگ وہاں آ کر کھانا کھا سکیں اور رہ سکیں لیکن اس بات خیال رکھا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس سے ان کی مکمل چیکنگ کے بعد اندر آنے دیا جائے۔

وزیر اعظم نے یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے بھی 50ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تاکہ یوٹیلٹی اسٹور میں مستقل چیزیں رہیں اور عام آدمی اس سے کھانے پینے کی چیزیں خرید سکے۔انہوںنے کہاکہ ہم نے گندم کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے 280ارب روپے رکھے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے کسانوں کے ہاتھ میں پیسہ آئے گا اور کم از کم ہمارے دیہاتی علاقوں میں حالات بہتر رہیں گے۔

عمران خان نے پیٹرول، ڈیزل، لائٹ ڈیزل، کیروسین کی قیمتوں میں بھی 15روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے حکومت پر 75ارب روپے کا اثر پڑیگا۔وزیر اعظم نے بجلی اور گیس کے بلوں کے صارفین کے لیے بھی ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے 75فیصد صارفین کا 300یونٹ کا بل آتا ہے اور ان کے لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تین مہینے کی قسطوں میں بل دے سکیں گے۔

انہوںنے کہاکہ اسی طرح اسی طرح 81فیصد گیس کے صارفین جن کا بل 2ہزار روپے مہینہ سے کم آتا ہے، ان کو بھی تین مہینے کی قسطوں میں بل ادا کرنے کی سہولت میسر ہو گی۔عمران خان نے 50ارب روپے میڈیکل ورکرز کے لیے مختص کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ان کے لیے آلات لینے کے لیے ان کو طبی سہولیات کی فراہمی میں بھی مدد کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کھانے پینے چیزیں مثلاً دال چاول، گھی وغیرہ پر ٹیکسز وہ ختم کر دیے ہیں یا انتہائی کم دیے ہیں تاکہ ان کی قیمت نیچے آئے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے الگ سے 100ارب روپے مختص کیے ہیں تاکہ اس لاک ڈاؤن کے دوران ایمرجنسی کی صورت میں اس کو استعمال کیا جا سکے۔انہوں نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے لیے بھی 25ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا جس کس مقصد کٹس لینے سمیت دیگر طبی سازوسامان خریدنا ہے۔وزیر اعظم نے تعمیرات کی صنعت کے لیے خسوصی پیکج کے اعلان کی خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ ہم تعمیرات کی صنعت کے لیے آئندہ 3-4 دن میں ایک پیکج کا اعلان کر رہے ہیں اور یہ ایسا پیکج ہو گا جس کا پاکستان کی تاریخ میں آج تک اعلان نہیں کیا گیا کیونکہ اس صنعت سے ہمارے ہاں بیروزگاری کے کاتمے میں بھی مدد ملے گی اور دییگر صنعتوں کو بھی فائدہ ہو گا۔

کورونا وائرس کی وجہ سے ملک بھر میں لاک ڈائون کے سوال پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہوسکتا ہے جہاں کورونا کا خدشہ لگے اسے سیل کریں، اگر خدانخواستہ کرفیو لگانا پڑا تو پہلے پوری تیاری کرنی ہوگی، کرفیو لگنے پر انتظامیہ کے ساتھ مل کر رضاکاروں کی فورس بناناپڑیگی اور اس فورس کے ذریعے غریبوں کو کھانا گھروں پر پہنچانا پڑے گا۔وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈائون کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کتنی دیر چھابڑی والے کو گھر میں بندکرسکتے ہیں کیا ہمارے پاس یہ صلاحیت ہے کہ ہم غریبوں کے گھرکھاناپہنچاسکیں انہوں نے کہا کہ لاک ڈائون کے تحت اسکول اورعوامی مقامات پہلے ہی بندہیں، ہم ملک بھرمیں کرفیوکے متحمل نہیں ہوسکتے، ملک میں 21کیس آنے پر اسکول اور دیگرادارے بندکردئیے گئے تھے۔

عمران خان نے کہا کہ یہ ٹی ٹوئنٹی کا میچ نہیں، ہوسکتا ہے صورتحال 6 مہینے چلے، ہمیں افراتفری کے بجائے دانشمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے ، ٹرانسپورٹ بندکرنے سے سب سے بڑامسئلہ سپلائزکا آتا ہے، لوگوں کوپکڑکے جیلوں میں ڈالاگیاتووہاں بھی کوروناپھیل سکتاہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعدصوبے خودفیصلہ کرتے ہیں ہم صرف تجویزکرسکتے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہاکہ وقت نے چین میں پاکستانی طلبہ سے متعلق ہمارافیصلہ درست ثابت کیا۔ایک سوال پر وزیراعظم نے کہاکہ ایران میں تو خود مسئلے تھے، کیا ہم پاکستانیوں کو واپس نہ لیتی ایران کوروناسے چین کی طرح ڈیل نہیں کرسکا۔ انہوںنے کہاکہ ڈاکٹر ظفر مرزا یہاں سے تفتان گئے اور وہاں جائزہ لیا، وہاں کچھ تھا ہی نہیں، اٴْس ویرانے میں ہم تیاری کرلیتے یہ بہت مشکل تھا، ہم نے وہاں لیب لے گئے ،ہم باقی دنیا سے بہت بہتر ہیں۔

انہوںنے کہاکہ جتنی تیزی سے ہم نے کام کیا ،چیلنج کرتا ہوں کہ کسی ملک میں اگر ایسا ہوا ہو تو بتائیں۔ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ زیادہ لوگ جمع ہونے سے کوروناتیزی سے پھیلتاہے، سب سے زیادہ خطرہ کورونا سے نہیں ،غلط فیصلوں سے ہوسکتا ہے کیونکہ ہم بھی جو بھی فیصلہ کرتے ہیں اس کے اثرات مرتب ہوتے اور ہمیں اپنے ملک کے حالات دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم جو فیصلہ کریں گے کہیں اس کے اثرات کہیں معاشرے میں کورونا سے زیادہ تباہی تو نہیں مچا دیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ آج سب سے زیادہ خطرہ کورونا کے خلاف نہیں غلط خبروں سے ہے، جب 21 کیسز تھے ہم نے اسی وقت لاک ڈائون کردیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ضروری یہ ہے کہ افراتفری نہیں پھیلائی جائے، مجھ سے اس وقت میڈیا کی بات نہ کریں، کورونا کی بات کریں، جس طرح کی میڈیا آزادی پاکستان میں ہے چیلنج کرتا ہوں کہ مغرب میں بھی حاصل نہیں۔ انہوںنے کہاکہ میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں اور اس پر پھر کبھی بات ہوگی ۔

ایک سوال پر عمران خان نے کہا کہ میں اگر اٹلی یا فرانس میں ہوتا تو کرفیو لگا دیتا، ٹرانسپورٹ بند کرنے سے سپلائرز کا مسئلہ آتا ہے، ہمیں گزشتہ روز پتہ چلا کہ کراچی میں پورٹ بند ہونے سے دالیں وہیں رک گئیں۔انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہم سب کو ایک ہفتے بعد اس کا جائزہ لینا ہے۔عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے فیصلے ایک چھوٹی سی ایلیٹ طبقے کو دیکھ کر لیے جاتے ہیں، ہمارے تعلیمی اور عدالتی نظام کا بھی یہی حال ہے، کورونا وائرس کے پیش نظر بھی لاک ڈاؤن کو لیکر عمومی سوچ یہی ہے تاہم مکمل کرفیو لگانے سے نقصان امیر کو نہیں بلکہ کچی بستیوں میں رہنے والے غریبوں کو ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے غریبوں کے بارے میں سوچتاہوں کہ وہ ان حالات میں کہاں سے اپنے گھر کا چولہا جلائیں گے، اگر ہمارے معاشی حالات اٹلی اور چین جیسے ہوتے تو کرفیو لگانا آسان ہوتا۔عمران خان نے کہا کہ اگر ہم کرفیو لگاتے ہیں تو کیا ہم نے سوچا ہے کہ ہسپتال کام کیسے کریں گے، اس میں سپلائی کیسے آئے گی، استاف کیسے کام کرے گا، ڈاکٹر اور نرس کے علاوہ پورا اسٹاف ہے جس کے بارے میں سوچنا ہے۔

انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ کرفیوآخری مرحلہ ہے اس سے متعلق سوچ سمجھ کر فیصلہ کرناپڑیگا،جہاں کوورنا پھیلنے کا خدشہ ہے ہم اس علاقے کو سیل کریں گے، وفاق سمیت تمام صوبوں کو دو ہفتو ں بعد پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑیگی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ وزارت اطلاعات کو ہدایت جاری کی ہے کہ میڈیا ورکرز کے لیے بھی پیکج تیار کیا جائے۔