سندھ حکومت نے گیس پائپ لائن کیلئے راستہ دینے سے انکار کردیا، صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے: عمر ایوب خان

گیس کی قلت پر قابو پانے کیلئے ایل این جی درآمد کرنا پڑے گی، وفاقی وزیر پٹرولیم

جمعرات 24 ستمبر 2020 19:44

سندھ حکومت نے گیس پائپ لائن کیلئے راستہ دینے سے انکار کردیا، صورتحال ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 ستمبر2020ء) وفاقی وزیر پٹرولیم عمر ایوب خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے کہا ہے کہ گیس کے شعبہ کا گردشی قرضہ 250 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، سردیوں میں ایس ایس جی سی کے سسٹم میں گیس کی قلت 400 ایم ایم سی ایف ڈی اور ایس این جی پی ایل کے سسٹم میں 300 ایم ایم سی ایف ڈی رہنے کی توقع ہے، (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے تیل و گیس کے ذخائر کی دریافت کیلئے اقدامات نہیں کئے، ملک میں تیل و گیس کے ذخائر 7.5 فیصد کے حساب سے کم ہو رہے ہیں، سندھ حکومت نے گیس پائپ لائن کیلئے 17 کلومیٹر کے راستے کیلئے ابھی تک اجازت نہیں دی، گیس پائپ لائن کیلئے جلد راستہ نہ ملا تو صورتحال خراب ہو سکتی ہے، 17 کلومیٹر پائپ لائن سے اضافی 150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جا سکتی ہے، گیس کی قلت پر قابو پانے کیلئے ایل این جی درآمد کرنا پڑے گی۔

(جاری ہے)

انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی پٹرولیم عمر ایوب خان نے کہا کہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے تیل و گیس کے ذخائر کی دریافت کیلئے اقدامات نہیں کئے، پاکستان کے تیل و گیس کے ذخائر 7.5 فیصد کے حساب سے کم ہوتے رہے، سندھ خصوصاً کراچی میں گیس کی قلت کا سامنا ہے، گیس پائپ لائن کیلئے 17 کلومیٹر کے راستے کی سندھ حکومت نے ابھی تک اجازت نہیں دی، گیس کے شعبہ میں گردشی قرضہ 250 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے، ملک میں گیس کی کمی ہے جسے پورا کرنے کیلئے باہر سے گیس درآمد کرنا پڑے گی، سردیوں میں گیس کی قلت کے حوالہ سے پیشگی اقدامات کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر سندھ حکومت 17 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کیلئے راستہ فراہم کر دے تو ہم فوری طور پر یہ پائپ لائن بچھا دیں گے، اس سے 150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سسٹم میں آ جائے گی، ملک میں گیس کی قلت ہو رہی ہے اور ہمیں گیس درآمد کرنا پڑے گی، سردیوں کیلئے ہمیں گیس کی منصوبہ بندی کرنا پڑے گی اور اس کیلئے ہمیں سی این جی اور دیگر کئی شعبوں کی گیس کو بند کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ سے پوچھا جائے کہ وہ راہداری کیوں نہیں دے رہی، سردیوں میں گیس کی طلب بڑھ جاتی ہے، ویٹیج ایوریج پر گیس کی قیمت کا تعین نہیں کیا جاتا تو پھر یہ مسئلہ رہے گا اور گیس کی قلت ہو گی، ہم نے اس معاملہ پر ایک گیس کانفرنس کا بھی اہتمام کیا اور اس کے حل کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے کہا کہ سندھ اور خصوصاً کراچی میں گیس کا پریشر کم ہے، پچھلے سال ایس ایس جی سی کے سسٹم میں 1120 سے 1150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس آ رہی تھی جو اب 960 سے 970 ایم ایم سی ایف ڈی پر آ گئی ہے، ایک سال میں ایس ایس جی سی کے سسٹم میں 140 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی پیداوار کم ہوئی، گذشتہ سال جون سے کے الیکٹرک کو 100 ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی گیس دی جا رہی ہے، یہ اگر فراہم نہ کرتے تو صورتحال مزید خراب ہو جاتی، کراچی میں دسمبر میں گیس کی قلت 250 سے 450 ایم ایم سی ایف ڈی تک ہو جائے گی تاہم سردیوں میں سوئی سدرن کے نظام میں بھی 300 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی کمی متوقع ہے پھر ہم ایس این جی پی ایل کے سسٹم سے ایس ایس جی سی کو گیس بھی نہیں دے سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پورٹ قاسم سے ایل این جی کی فراہمی کیلئے 1700 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانا چاہتے ہیں اس کیلئے سندھ حکومت کا تعاون چاہئے، اضافی ایل این جی کراچی میں استعمال ہو گی ورنہ گیس کی قلت کا صنعتی شعبہ پر منفی اثر پڑے گا، صنعت کاروں کے ساتھ ہماری بات ہوئی ہے ان سے بھی کہا ہے کہ وہ سندھ حکومت سے رابطہ کریں، 17 کلومیٹر پائپ لائن میں سے 5 کلومیٹر کا راستہ سندھ حکومت کی ملکیت ہے، پرائیویٹ راستہ کی زمین حاصل کی جا چکی ہے، اکتوبر میں ایس ایس جی سی نے سندھ حکومت کو اس کیلئے درخواست دی تھی، وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیر توانائی سے بھی ہماری بات ہوئی، تین مقامات پر رائٹ آف وے کا مسئلہ تھا، ایک راستہ دسمبر میں فراہم کر دیا گیا جس سے ہم نے گیس فیلڈز کو ایس ایس جی سی کے سسٹم سے منسلک کر دیا، 9 ستمبر کو ہم سے وعدہ کیا گیا کہ دو ہفتوں میں 17 کلومیٹر گیس پائپ لائن کے راستے کی منظوری ہو جائے گی، امید ہے کہ اس سلسلہ میں پیشرفت ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں گیس پریشر کی کمی کا سامنا ہے، سوئی سدرن سسٹم میں گیس کم اور طلب زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو سال میں گیس کے 26 نئے چھوٹے ذخائر دریافت کئے گئے، حکومت نی 245ایم ایم سی ایف ڈی گیس نظام میں شامل کی تاہم 400 ایم ایم سی ایف ڈی کی کمی بھی ہوئی ہے، نئے بلاکس پر کام شروع کرنے میں 4 سے 5 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، گذشتہ حکومت نے پانچ سال میں کسی نئے بلاک کیلئے لائسنس جاری نہیں کیا، موجودہ حکومت نے 10 نئے بلاکس کیلئے لائسنس جاری کئے ہیں، 20 بلاکس کا اکتوبر کے پہلے ہفتہ میں اشتہار دیدیا جائے گا، دسمبر میں 10 آف شور بلاکس بھی نیلامی کیلئے پیش کر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جی آئی ڈی سی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظرثانی کیلئے 4 کمپنیوں نے درخواستیں دائر کی ہیں، ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل نے جی آئی ڈی سی کی پہلی قسط بلوں میں بھجوا دی ہے اور کسی کو رعایت نہیں دی گئی تاہم کچھ کمپنیوں نے کیلکولیشن اور کولیکشن کے معاملہ پر حکم امتناعی حاصل کیا ہے، وہ جمع نہیں کرا رہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں گیس کمپنیوں کے خلاف ایک سال میں 98 ہزار شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صنعتوں اور دیگر شعبوں کا گیس پریشر کم کرکے بھی گھریلو صارفین کو گیس فراہم کرنا پڑی تو کریں گے کیونکہ گھریلو صارفین ہماری اولین ترجیح ہیں۔