نیشنل ایکشن پلان پر دوبارہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، امیر حیدر خان ہوتی

دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لئے سیاست اور نظریات درمیان میں نہیں آنے چاہئیں،سابق وزیر اعلیٰ کے پی کے اچی بار نے جمہوریت کے لئے تاریخی کردار ادا کیا ہے، سانحہ کارساز کے شہدا کی برسی کے لئے کراچی پہنچا ہوں، جو لوگ سانحہ میں شہید ہوئے وہ صرف پیپلز پارٹی کے نہیں جمہوریت کے شہدا ہیں، بارہ مئی سانحہ میں شہید ہونے والے عدلیہ کی آزادی کے شہدا ہیں،سٹی کورٹ میں وکلاء سے خطاب

منگل 20 اکتوبر 2020 19:55

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 اکتوبر2020ء) سابق وزیراعلیٰ کے پی کے امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر دوبارہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لئے سیاست اور نظریات درمیان میں نہیں آنے چاہئیں۔

(جاری ہے)

امیر حیدر خان ہوتی نے سٹی کورٹ میں وکلائ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی بار نے جمہوریت کے لئے تاریخی کردار ادا کیا ہے، سانحہ کارساز کے شہدا کی برسی کے لئے کراچی پہنچا ہوں، جو لوگ سانحہ میں شہید ہوئے وہ صرف پیپلز پارٹی کے نہیں جمہوریت کے شہدا ہیں، بارہ مئی سانحہ میں شہید ہونے والے عدلیہ کی آزادی کے شہدا ہیں، انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی نے عدلیہ کی آزادی کے لئے قربانیاں دیں، 2008 سے 2018 تک جمہوری حکومت کا تسلسل جاری رہا تو اسکا سہرا عوام کو جاتا ہے، آمر کا راستہ روکنا اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کا سہرا وکلا کو جاتا ہے، سچ کہنے اور لکھنے کیلے لئے بہت ہمت درکار ہوتی ہے، میڈیا نے سچ لکھنے کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں، سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا کہنا تھا کہ پچھلی دہائی میں افغانستان سے دہشت گردی کے اثرات فاٹا تک پہنچے، ہم نے ایسا وقت بھی دیکھا جب لوگوں کو حکومت پر اعتماد نہیں رہا، امن کے لئے ہم نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے، انتظامیہ سے کہتا ہوں نیشنل ایکشن پلان پر دوبارہ توجہ دیں، دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لئے سیاست اور نظریات درمیان میں نہیں آنے چاہیئیں، امن کے لئے کسی بھی اقدام یا پالیسی میں بھرپور تعاون کریں گے، افغانستان میں ایک طرف امن مذاکرات ہیں دوسری طرف دہشتگردی کے واقعات بھی ہورہے ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ افغانستان آج پاکستان کے امن کے لئے کردار کو سراہ رہا ہے، ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے امن میں سہولت کاری کا کردار ضرور ادا کرنا چاہیئے، پاکستان اور افغانستان کا امن ایک دوسرے سے جڑا ہے، پاکستان میں امن کے بغیر افغانستان میں امن ہوسکتا ہے، دونوں ملکوں کو مشترکہ دشمن کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا، سابقہ قبائلی علاقے افغانستان کی جنگ سے پہلے پٴْرامن تھے، انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی علاقوں میں آئینی ترمیم ہوگئی اب انکو قومی دھارے میں لانا ہے، انتظامی اور مالی معاملات ہیں جن کو درست کرنا ضروری ہے، سابقہ قبائلی علاقوں کو ترجیحی بنیادوں پر سپورٹ کیا جائے، آج بھی قبائلی علاقوں میں خاصہ دار احتجاج کررہے ہیں۔

#