پاکستان میںعالمی قانون ، خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کے چیلنجز ،مسئلہ کشمیر کے قانونی پہلوئوں کی تفہیم کیلئے لیگل تھنک ٹینکس کا قیام ناگزیر ہے ،سردار مسعود خان

بھارت نے کشمیر کے بڑے حصے پر غیر قانونی قبضہ کے بعد قابض آئین پرستی کا راستہ اختیار کر کے دنیا ،کشمیریوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی،جموں وکشمیر کے عوام ہمارے بہن بھائی ،جسم و جان کا حصہ ہیں،صدر آزاد جموں وکشمیر

بدھ 20 جنوری 2021 17:03

پاکستان میںعالمی قانون ، خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کے چیلنجز ،مسئلہ ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جنوری2021ء) آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ پاکستان میںبین الاقوامی قانون ، خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کے چیلنجز اور مسئلہ کشمیر کے قانونی پہلوئوں کی تفہیم کے لئے لیگل تھنک ٹینکس کا قیام ناگزیر ہے تاکہ قومی اہمیت کے مسائل پر ملک کے قانون دان باہم تبادلہ خیال کر کے ان امور پر جامع سفارشات تیار کر سکیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملنیم یونیورسٹی کالج میں ایک لیگل تھنک ٹینک کے افتتاح کے بعد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سنٹر فار لاء اینڈ نیشنل سکیورٹی کے زیر اہتمام ہونے والی اس تقریب سے صدر ریاست کے علاوہ وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف، پارلیمانی سیکرٹری برائے خارجہ امور محترمہ عندلیب عباس، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل (ر) سمریز سالک، ممتا قانون دان جسٹس (ر) علی نواز چوہان، سابق وفاقی وزیر قانون احمر بلال صوفی اور روٹس ملنیم سکول کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور سنٹر فار لاء اینڈ نیشنل سکیورٹی کے مشاورتی بورڈ کے چیئرمین چوہدری فیصل مشتاق نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان نے کہا کہ کثیر الجہتی عدالتی عمل نہایت پیچیدہ ہوتا ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ پوری قوم کشمیر سمیت تمام قومی اہمیت کے مسائل پر یکساں قانونی سوچ اپنائے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے قانونی پہلو کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک خلاء پایا جاتا ہے جس کو سنٹر فار لاء اینڈ نیشنل سکیورٹی جیسے ادارے پرُ کر سکتے ہیں۔

صدر سردار مسعود خان نے تجویز پیش کی کہ حکومت پورے ملک سے چیدہ چیدہ ماہرین قانون کو مدعو کر کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تجاویز حاصل کرے تاکہ ان تجاویز پر غور عوض کر کے انہیں جامع شکل میں عالمی ماہرین قانون کے سامنے پیش کیا جائے۔ تنازعہ کشمیر کے تاریخی پس منظر سے شرکائے تقریب کو آگاہ کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ کشمیریوں نے قیام سے پاکستان سے قبل ہی کشمیر اور پاکستان کے قدرتی رشتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی قسمت پاکستان سے وابستہ کرنے کا عہد کیا تھا۔

بھارت نے کشمیر کے ایک بڑے حصے پر غیر قانونی قبضہ کرنے کے بعد قابض آئین پرستی کا راستہ اختیار کر کے دنیا اور کشمیریوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ بھارت نے گزشتہ 73سال میں جہاں اپنی قابض فوج کے ذریعے کشمیریوں کو ڈرا دھمکا کر خوفزدہ کیے رکھا وہاں سیاسی اور معاشی مرعات سے بھی اُن کی وفاداریاں خریدنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے سیاسی غداروں کا ایک گروہ تیار کر کے انہیں کشمیریوں کے خلاف استعمال کیا۔

صدر آزادکشمیر نے کہا کہ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے سیاسی وفاداروں نے کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضہ کو مستحکم کرنے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ پوری پاکستانی قوم کو یہ کامل یقین ہونا چاہیے کہ جموں وکشمیر کی سرزمین اُن کی سرزمین ہے ۔ ہم کسی غیر کی سرزمین حاصل کرنے کے لئے جنگ نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ جموں وکشمیر کے عوام ہمارے بہن بھائی اور ہمارے جسم و جان کا حصہ ہیں۔

مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت نے اگر 2019ء میں مقبوضہ کشمیر پر یلغار کر کے جہاں متنازعہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا وہاں ان منقسم حصوں کو بھارتی وفاق میں ضم کرنے کا غیر قانونی قدم بھی اُٹھایا اور بھارت کا یہ اقدام بین الاقوامی قانون کی رو سے ایک جرم ہے۔

اسی طرح گزشتہ سال بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی لا کر بھارت سے بیس لاکھ سے زیادہ ہندو شہریوں کو لا کر مقبوضہ کشمیر کے شہری حقوق دئیے اور اب بھارتی حکمران یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ آئندہ دو سے تین سال کے اندر مزید تیس لاکھ سے زیادہ بھارتی شہریوں کو یہ حقوق دے کر مجموعی تعداد پچاس لاکھ تک لے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت کے نفرت، علیحدگی اور کثرت کی حکمرانی کی پالیسی کی وجہ سے آج مقبوضہ کشمیر دنیا میں اسلامو فوبیا کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے جبکہ بھارتی فوج کے مظالم کی وجہ سے یہ ریاست دہشت گردی کا بھی سب سے بڑا مرکز ہے۔ بھارت کے یہ تمام اقدامات بین الاقوامی انسانی قانون اور روایتی قانون کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چوتھے جنیوا کنونشن اور اس کے ایڈیشنل پروٹوکول ون کے تحت کسی بھی مقبوضہ علاقے کی اصل آبادی میں رد و بدل کرنا جنگی جرم ہے۔