وفاقی بجٹ مسترد،خیبرپختونخوا اور ضم اضلاع کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ جاری ہے، ثمرہارون بلور

آئی ایم ایف کے ایما پر بجٹ تیار کیا گیا، ہر صوبے کا حصہ بڑھا لیکن خیبرپختونخوا کا حصہ کم کردیا گیا 2020ء میں پختونخوا کا حصہ 274ارب روپے تھا جو کم کرکے 248ارب روپے کردیا گیا ہے،صوبائی ترجمان عوامی نیشنل پارٹی

منگل 15 جون 2021 20:27

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جون2021ء) عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی ترجمان ثمرہارون بلور نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ کو عوام دوست قرار دینے والے جھوٹ بول رہے ہیں، ایک غیرمنتخب شخص کے ذریعے آئی ایم ایف کے ایما پر بجٹ تیار کیا گیا جسے مسترد کرتے ہیں۔ وفاق کی جانب سے خیبرپختونخوا کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وفاقی بجٹ میں ہر صوبے کا حصہ بڑھایا گیا لیکن پختونخوا کا حصہ کم کردیا گیا۔

پشاور پریس کلب میں انفارمیشن کمیٹی کے اراکین رحمت علی خان، تیمورباز خان اور حامد طوفان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ثمرہارون بلور نے کہا کہ 2020 میں سندھ کو 194ارب، 2021 میں 321ارب روپے مختص کئے گئے ہیں،پنجاب کیلئے 2020 میں 310ارب، 2021 میں 500ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

بلوچستان کا حصہ 89 ارب سے بڑھا کر 133 ارب روپے کردیا گیا ہے۔ پختونخوا کا حصہ 274ارب روپے سے کم کرکے 248ارب روپے کردیا گیا ہے۔

اسلام آباد کا حصہ بھی 600 ارب سے بڑھا کر 900 ارب روپے کردیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 6000میگاواٹ بجلی پیدا کرنیوالے صوبے کو نٹ ہائیڈل پرافٹ کی رقم بھی نہیں دی جارہی ہے۔ تقریبا 650ارب روپے صرف نٹ ہائیڈل پرافٹ کے مد میں مرکز کے ذمے واجب الادا ہیں۔ مرکز اگر زیادہ رقم نہیں دے سکتی تو کم از کم اس صوبے کا آئینی حق تو دیں۔ دیگر صوبوں کیلئے مختص رقم سے ہم خوش ہیں لیکن پختونخوا کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کیا جارہا ہی ضم اضلاع بارے ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے شکار ان اضلاع کے ساتھ کیا گیا ایک وعدہ ابھی تک پورا نہیں کیا گیا، 100 ارب روپے سالانہ کیوں نہیں دیے جارہی ضم اضلاع کے ساتھ اس بار بھی زیادتی کی گئی اور دس سالہ ترقیاتی پلان کیلئے صرف 30ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

ثمرہارون بلور نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کا کوئی نام ہی نہیں لے رہا، وزیراعلی اور تمام وزراء نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔آخری مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وزیراعلی نے صوبائی حقوق کیلئے ایک لفظ تک نہیں بولا۔ اگر صوبائی حکومت اپنے حقوق کیلئے مرکز کے خلاف احتجاج کرنا چاہتی ہے تو ہم انکے ساتھ ہیں۔کیا وزیراعلی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کیلئے درخواست نہیں دے سکتا اگر یہ لوگ عوام کے حق کیلئے مرکزی حکومت سے بات نہیں کرسکتے تو ہم کرتے رہیں گے۔

یہ صرف پی ٹی آئی یا اے این پی کا مسئلہ نہیں، اس صوبے کے عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے۔انفارمیشن کمیٹی کے رکن حامد طوفان نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت مسلسل پسماندہ علاقوں کو نظرانداز کرکے صرف پنجاب پر نظریں مرکوز کرچکی ہے۔ اس حکومت نے پورے ملک میں ابھی تک کوئی میگا منصوبہ شروع نہیں کیا لیکن قرضہ پچھلی حکومتوں سے زیادہ لیا ہے۔

ستمبر2020 تک پی ٹی آئی حکومت نے 12کھرب کا قرضہ لیا جو ن لیگ کے پانچ سالہ دور کا 48فیصد ہے۔ بیرونی قرضہ جون 2018 میں 12کھرب تھا، جو ستمبر 2020 تک 54فیصد بڑھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے بڑے دعوے کرنیوالے وزراء بتائے 45فیصد بجٹ کیوں اس بار بھی ضائع ہوا ہی پچھلی بار 47فیصد جبکہ اس بار بھی 45فیصد بجٹ یہ حکومت خرچ نہ کرسکی عوامی پیسہ ضائع کیا جارہا ہے۔

صحت کیلئے 31ارب میں صرف 15ارب جاری ہوئے، 16ارب ضائع ہوگئے۔ محکمہ محنت کیلئے 2اعشاریہ 35ارب روپے میں صرف 35کروڑ 90 لاکھ جاری ہوئے۔ حامد طوفان نے کہا کہ لوکل اور ضلعی اے ڈی پی میں انفارمیشن کا بجٹ صرف 7 فیصد استعمال ہوا۔ ٹیکسز کا ہدف بڑھا کر بالواسطہ اور بلاواسطہ عوام پر مزید ٹیکسز لگانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ خدشہ ہے کہ 300 ارب سے زائد نئے ٹیکسز لگائے جائیں گے۔ پٹرولیم لیوی مزید بڑھائی جارہی ہے جس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ پہلے سے 100روپے فی لٹر پٹرول مزید بڑھانا عوام کو فاقہ کشی پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔ اے این پی عوامی مقدمہ عوام کے سامنے رکھ کر لڑے گی۔