بھارت: مسلمانوں کی گرفتاری پر سوالیہ نشان

DW ڈی ڈبلیو منگل 13 جولائی 2021 15:40

بھارت: مسلمانوں کی گرفتاری پر سوالیہ نشان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جولائی 2021ء) انتہاپسند تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں دو مسلمانوں کو اترپردیش کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری پر مختلف حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ کیا جارہا ہے کہ آخر اس طرح کی گرفتاریاں الیکشن سے قبل ہی کیوں ہوتی ہیں؟

معاملہ کیا ہے؟

اترپردیش کی پولیس نے اتوار کو لکھنؤ کے قریب کاکوری تھانہ علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے دو مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کرنے اور ان کے پاس سے بڑی تعداد میں ممنوعہ اور دھماکہ خیز اشیاء برآمد کرنے کا دعوی کیا تھا۔

اترپردیش میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت قائم ہے اور یوگی ادیتیہ ناتھ وزیر اعلی ہیں۔

(جاری ہے)

یوپی پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے میڈیا کے سامنے دعوی کیا کہ منہاج اور مسیرالدین انصاری نامی دونوں افراد انتہاپسند تنظیم القاعدہ کی ایک ذیلی تنظیم 'انصار غزوہ الہند‘ کے سرگرم رکن ہیں اور انہوں نے''یوپی کو دہلا دینے کا منصوبہ بنایا تھا۔

یہ لوگ یوم آزادی سے قبل کئی شہروں میں دھماکے کرنا چاہتے تھے اور اجودھیا، کاشی اور متھرا سمیت کئی اضلاع میں دہشت گردانہ کارروائی کی سازش تیار کر رہے تھے۔"

عدالت نے مذکورہ دونوں افراد کو چودہ دنوں کے لیے پولیس ریمانڈ میں دے دیا ہے۔ پولیس مبینہ طور پر دیگر مشتبہ افراد کو تلاش کر رہی ہے اور ان کے اہل خانہ سے بھی پوچھ گچھ کی ہے۔

دونوں کے گھر والوں نے پولیس کے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔

’یہ گھسی پٹی اسکرپٹ ہے‘

ان گرفتاریوں پر سیاسی رہنماؤں، سابق پولیس افسران اور صحافیوں نے انگلی اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت اور پولیس 'گھسی پٹی اسکرپٹ دہرا رہی ہے۔‘

انڈین پولیس سروس کے سابق افسر اور کیرل کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر این سی استھانا نے متعدد ٹوئٹس کر کے کہا،”القاعدہ، آئی ایس آئی ایس وغیرہ کانام بھلے ہی دنیا سے مٹ جائے یا مٹ گیا ہو، ہماری پولیس کے لیے ان کے ماڈیول ملک میں ہروقت ضرور موجود رہتے ہیں۔

جب ضرورت پڑے، پیش کردو۔ ایک ہی گھِسا پِٹا جھوٹ بولتے ہوئے یہ لوگ بیزار بھی نہیں ہوتے؟ کچھ نیا سوچو، کوئی نئی کہانی بناؤ۔"

'بھارتی جیلوں میں بند مسلم طلبہ کو رہا کیا جائے'

استھانا نے طنز کرتے ہوئے کہا،”انہیں شرمندگی اور محنت سے بچنے کے لیے میرا ایک مشورہ ہے۔ ایک جنرل ایف آئی آر کا ٹمپلیٹ بنوا کر ہر تھانے کو جاری کر دیا جائے۔

جس میں ملک سے غداری سے لے کر فرقہ وارانہ خیر سگالی تباہ کرنے جیسے تمام دفعات موجود ہوں۔ جس دفعہ پر چاہیں ٹِک کردیں۔ صرف ملزم کا نام اور جگہ ڈالنے کی جگہ خالی رکھیں۔"

سابق پولیس افسر کا کہنا تھا،”حیرت کی بات ہے کہ ملزم ہمیشہ پاسپورٹ اپنے ساتھ رکھتا ہے تاکہ اس کی شناخت ہو۔ کچھ کاجو بادام بھی اس کی جیب میں ہوتے ہیں تاکہ دیر تک لڑ سکے، کچھ سفید پاوڈر جیسا دھماکہ خیز مادہ بھی ہوتا ہے۔

اکثر ایک پرچی بھی رکھتا ہے، جس میں آئی ایس آئی کی طرف سے دی گئی ہدایات درج ہوتی ہیں۔"

اس سے تو لطیفوں کی کتاب تیار ہوجائے

بھارتی صحافی پرشانت ٹنڈن کا کہنا تھا،”اگر یوپی اور دہلی پولیس کی ایف آئی آر کا مجموعہ شائع کر دیا جائے تو اس سے لطیفوں کی ایک دلچسپ کتاب تیار ہو سکتی ہے۔" انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا،”میں نے آج صبح آم خریدے، بھاؤ بھی کیا، لیکن ابھی اگر وہ آم والا میرے سامنے آجائے تو اسے پہچان نہیں پاؤں گا۔

مگر پولیس دعوی کرتی ہے کہ ایک دکاندار نے چار ماہ بعد ٹفن خریدنے والے کو فوراً پہچان لیا، حتی کہ ٹفن کا رنگ سمیت۔"

'بھارت اب جمہوری ملک نہیں رہا' راہول گاندھی

پرشانت ٹنڈن کا کہنا تھایہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ جب بھی پولیس کسی”خونخوار دہشت گرد، ماسٹر مائنڈ‘‘ وغیرہ کو گرفتار کرتی ہے تو اس کے پاس سے اردو کا ایک اخبار بھی برآمد ہوتا ہے، ”گوگل میپ اور اینڈرائیڈ فون کے زمانے میں وہ اپنی جیب میں کاغذ پر بنایا گیا ایک نقشہ ضرور رکھتا ہے تاکہ جب پکڑا جائے تو پولیس کو آسانی ہو۔

"

سیاسی جماعتوں کی طر ف سے نکتہ چینی

متعدد سیاسی جماعتو ں نے بھی ان مسلمانوں کی گرفتاری پر نکتہ چینی کی ہے۔ اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اور سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو نے پولیس کارروائی پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا،”انہیں یوپی پولیس اور یوگی ادیتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت پر بھروسہ نہیں ہے۔

"

ریاست کی سابق وزیر اعلی اور بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی نے ٹوئٹ کرکے کہا،”یوپی اسمبلی الیکشن کے قریب آنے پر اس طرح کی کارروائی سے لوگوں کے ذہن میں شبہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر کارروائی کی پیچھے سچائی ہے تو پولیس اتنے دنوں تک بے خبر کیوں رہی؟"

’ہم کسی سے نہیں ڈرتے،‘ القاعدہ کی دھمکی پر بھارت کا رد عمل

راشٹریہ لوک دل کے رہنما اور صحافی شاہد صدیقی نے دونوں مسلمانوں کی گرفتاری پر کہا،”یہ پرانا کھیل ہے، الیکشن سے قبل لشکر طیبہ اور القاعدہ کے نام پر گرفتاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔

الیکشن کے بعد یہ سب غائب ہو جاتے ہیں۔غیر مسلم بھی اس کھیل کو سمجھ چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ گھسا پٹا اسکرپٹ کتنی بار استعمال کرو گے۔"

بی جے پی نے تاہم ان بیانات کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں قومی سلامتی جیسے حساس معاملات میں بھی سیاست کر رہی ہیں۔ اور پولیس کی کامیابی پر اس کی تعریف کرنے کے بجائے اس کا حوصلہ پست کررہی ہیں۔

خمیازہ تو مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے

تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ ایسی گھسی پٹی کہانیوں کا خمیازہ تو مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہی ہے۔ گلبرگہ کے نثار احمد سے لے کر سری نگر کے بشیر بھٹ جیسے سینکڑوں مسلم نوجوان ہیں، جن کی زندگی کے قیمتی دس بیس برس جیل کی کوٹھری میں برباد ہو گئے۔ ایسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں کیسز ہیں کہ دہشت گردی کے الزام میں برسوں تک جیلوں میں رکھنے کے بعد عدالت نے انہیں بے گناہ پایا اور بری کردیا۔

حال ہی میں 120مسلمانوں کو عدالت نے باعزت بری کر دیا، جنہیں گجرات کی پولیس نے سن 2001 میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تھا۔ یہ لوگ ایک سیمینار میں شرکت کے لیے گجرات گئے تھے لیکن کسی نے پولیس سے شکایت کر دی کہ یہ لوگ دہشت گردی کا منصوبہ بنانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔

بھارت: ہندوؤں کو 'مسلمان بنانے‘ کے الزام میں مبلغین گرفتار

اترپردیش کی بی جے پی حکومت کو قانون و انصاف کی صورت حال کے لیے اکثر نکتہ چینی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ گزشتہ جمعے کو 87 سابق بیوروکریٹس نے ایک کھلے خط میں ریاست میں قانون کی حکمرانی کی صریح خلاف ورزی کا الزام لگایا۔