میرے بیٹے کو اغوا کر نے کا مقصد مجھے یہ پیغام دینا تھا کہ میں اسمبلی میں جمہوریت ،پارلیمنٹ کی بالادستی اور حق کی آواز بلند نہ کروں ،نصر اللہ زیرے

گھنٹے گزرنے کے باوجود ملزمان کی گرفتاری سوالیہ نشان ہے ،عبدالرحیم زیارتوال ، نصر اللہ زیرے ،عبدالقہار خان ودان ،خوشحال خان کاکڑ

منگل 20 جولائی 2021 23:35

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جولائی2021ء) پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری سابق صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال ، رکن صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے ، عبدالقہار خان ودان ، عثمان کاکڑ کے صاحبزادے خوشحال خان کاکڑ نے کہا کہ گزشتہ روز رکن صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے کے دس سالہ بیٹے کو نامعلوم افراد نے اغوا کرکے پانچ گھنٹے حبس بے جا میں رکھا جسے بعد میں چھوڑ دیا گیا اغوا کر نے کا مقصد مجھے یہ پیغام دینا تھا کہ میں اسمبلی میں جمہوریت ،پارلیمنٹ کی بالادستی اور حق کی آواز بلند نہ کروں بچے سے کہاگیا کہ تین کروڑ روپے دے دوپانچ گھنٹے بعد بیٹے کو اسی گاڑی میں ڈال کر سریاب روڈ پر چھوڑ دیاگیا ۔

یہ با ت انہوں نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کر تے ہوئے کہی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز رکن صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے کے دس سالہ بیٹے اویس یارخان کو اغواء کیا گیا گاڑی میں ڈال کر ایک گھر میں لے جایاگیااس سے پوچھ گچھ کی گئی،نصراللہ زیرے نے کہا کہ بیٹے کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کا مقدمہ درج کرادیاگیاہے، تاہم سی سی ٹی وی کیمرے کے باوجود ملزمان گرفتار نہیں ہوئے انہوں نے 11 سالہ بیٹے کے اغواء برائے تاوان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 34 گھنٹے گزرنے کے باوجود ملزمان کی گرفتاری سوالیہ نشان ہے حکومت اور پولیس فوری طور پر اویس یار خان کے اغواء میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے اگر گرفتاری عمل میں نہ لائی گئی تو ہم سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس میں ریاست اور اس کے ادارے ملوث ہیں پارٹی نے کبھی بھی اپنے بیانے اور موقف کو نہیں بدلا جس کی پاداش میں پارٹی رہنمائوں کے خلاف اس طرح کی حرکتیں کی جارہی ہیں جنہیں ہم کس صورت قبول نہیں کریں گے اور ہر فورم پر احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے رکن صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے نے کہا کہ سوموار کی صبح 7 بجے میرا 11 سالہ بیٹا اولس یار خان گھر کے باہر کھڑا تھا کہ ایک سوزوکی ڈبے میں سوار نامعلوم افراد اسے اپنے پاس بلاکر زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے اور اس کو حراساں کرتے ہوئے میرے اور دیگر گھر کے افراد کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ اپنے والد کو فون کرو کہ وہ 3 کروڑ روپے بھیج دیں انہوں نے بتایا کہ گاڑی میں دو افراد آگے اور 4 افراد پیچھے بیٹھے ہوئے تھے بیٹے کے لاپتہ ہونے پر میرے بھائی اور گھر کے دیگر افراد اس کو تلاش کرتے رہے جس کے بعد انہوں نے دکانی بابا چوک کے قریب پل کے نیچے چھوڑ دیا میرے بیٹے نے جب آنکھوں سے پٹی کھولی تو گاڑی جا چکی تھی اس وقت لوگوں سے ٹائم کا معلوم کیا تو 12 بج رہے تھے 5 گھنٹے تک بیٹے کو اغواء کئے رکھا انہوں نے کہا کہ میں فاتحہ خوانی کے لئے پشین گیا ہوا تھا وہاں پر مجھے اطلاع دی گئی میں نے وزیر داخلہ، آئی جی اور ڈی آئی جی پولیس کو واقع سے آگاہ کیا میرا بیٹا پیدل جتک اسٹاپ گھر پہنچا اور اس نے واقع کی تفصیلات بتائی میں نے بیٹے کے اغواء کی ایف آئی آر درج کروائی تا حال پولیس حکام نے ملزمان اور واقع کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دیں۔

عبدالرحیم زیارتوال نے واقع کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 11سالہ بچے کو اٹھانا اور اس طرح کا رویہ کہاں کی انسانیت ہے،صوبے میں امن وامان کی صورتحال مخدوش ہے موجودہ حکومت امن وامان کے حوالے سے زمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہے، ہمیں جمہوریت،پارلیمنٹ کے حوالے سے بات کرنے کی سزا دی جارہی ہے انہوں نے کہاکہ حکومت اور پولیس ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانے سے تا حال قاصر ہے اور ہمیں بھی کوئی معلومات نہیں دی جارہی کیونکہ پولیس کے پاس کوئی مشینری اور سازو سامان نہیں تمام سازو سامان مقتدر قوتوں کے پاس ہے۔

پولیس اور لیویز کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتظامی امور چلائیں لیکن حکام بالا کی وجہ سے ان کا تمام نظام مفلوج ہے۔ اغواء نما گرفتاریاں اور اس طرح کی حرکتیں ہمیں خوفزدہ نہیں کرسکتی پولیس اور دیگر حکام کی جانب سے تا حال ہمیں کوئی آگاہی فراہم نہیں کی گئی حالانکہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور آئین کی رو سے ادارے قوانین پر عملدرآمد کریں انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات کرکے ہمیں جمہوریت کے استحکام صوبے کے حقوق کے حصول، پارٹی کے بیانیے اور موقف سے دستبردار کرانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ واضح پیغام ہے جس طرح شہید عثمان خان کاکڑ کو اس کے گھر میں گھس کر ٹیکنیکل طریقے سے زخمی کرکے ہٹایا گیا انہوں نے کہا کہ شہر میں سیف سٹی اربوں روپے کی لاگت سے مکمل ہورہا ہے اس کے باوجود اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا لمحہ فکریہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس طرح کی روش برقرار رہی تو ملک، جمہوریت اور ادارے دیوالیہ ہوجائیں گے۔ آئین کا کردار ختم کرنے سے معاملات حل نہیں ہوں گے۔ صورتحال کو خرابی کی جانب لے جانے سے روکنے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ سیاسی قیادت اور میڈیا کو اپنا کردار ادا رکرنا چاہئے ہم گزشتہ 25 سال سے سراپا احتجاج ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں مشکلات میں الجھایا جارہا ہے۔

ہم نے آمرانہ سسٹم کی کبھی بھی حمایت نہیں کی اور نہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے غیر قانونی اقدامات کی نفی کی ہے اور جمہوریت اور سیاسی نظام کو مضبوط بنانے والے رہنمائوں اور جماعتوں کی موقف کی تائید کی ہے۔ ہم سب کو پارلیمنٹ کی بالادستی ، جمہوریت کے استحکام ، آئین کی پاسداری کے لئے کردار ادا کرنا چاہئیں۔ ہم پہلے بھی تحریک چلارہے ہیں اب بھی تحریک چلائیں گے اور اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

عبدالقہار خان ودان نے کہا کہ ہماری جماعت کو اپنے سخت موقف سے دستبردار کرانے کی کوشش کی جارہی ہے اس طرح کے اقدامات نفرت کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔ ہم پہلے بھی سراپا احتجاج تھے اب احتجاج کریں گے۔ خوشحال خان کاکڑ نے کہاکہ اس طرح کے اقدامات پارٹی کے بیانیے سے ہٹانے کی کوشش ہے جبکہ ہمارا واضح پیغام ہے کہ آپ ایک چھوٹے بچے کو موقف سے نہیں ہٹا سکے۔

نصر اللہ زیرے یا پارٹی کے دیگر قیادت کو کیسے ہٹائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اگر ایسا نہ ہوا تو ہم سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس واقع میں ریاست اور اس کے ادارے ملوث ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں نصر اللہ زیرے نے کہا کہ بچے کی بحفاظت بازیابی کے بعد میں نے وزیر داخلہ ، آئی جی اور ڈی آئی جی کو آگاہ کردیا۔

لیکن انہوں نے میرے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا بلکہ رات کو وزیر داخلہ کے کہنے کے بعد آئی جی اور ڈی آئی جی نے فون کیا تھا انہوں نے مطالبہ کیا کہ میرے بیٹے کے اغواء میں ملوث ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرکے قرار واقعی سزادیں تاکہ انصاف کے تقاضے پورا ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ صوبے میں قانون کی عملداری اور رٹ نہیں جس کی وجہ سے بد امنی بڑھ رہی ہے اور اس طرح کے واقعات تواتر رونما ہورہے ہیں۔ جو حکومت اور اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔اس موقع پر خوشحال خان کاسی، کبیر افغان سمیت دیگر رہنمابھی مو جود تھے ۔