Live Updates

طالبان امن کیلئے امریکہ کے شراکت دار ہو سکتے ہیں،امریکہ افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات اور علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے،عمران خان

جمعہ 24 ستمبر 2021 20:50

طالبان امن کیلئے امریکہ کے شراکت دار ہو سکتے ہیں،امریکہ افغانستان ..
اسلام آباد۔24ستمبر  (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 ستمبر2021ء) :وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان امن کیلئے امریکہ کے شراکت دار ہو سکتے ہیں،امریکہ افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات اور علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے،افغانستان کو تنازعات اور سابقہ حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ سے انسانی بحران کا سامنا ہے،پر امن افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے،جس سے تجارت اور ترقیاتی منصوبوں کی نئی راہیں کھل جائیں گی،چار دہائیوں کی جنگ اور تنازعات نے افغانستان کی معیشت ، معاشرے اور سیاست پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں،امریکہ ، چین اور روس سب کو  مل کر افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ ڈالنا ہوگا، پاکستان افغانستان کے دیگر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ مل کر نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کریگا،بھارت امریکی سٹریٹجک مفادات کی تکمیل کیلئے کبھی بھی چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

(جاری ہے)

جمعہ کو معروف امریکی میگزین’’نیوز ویک‘‘کو انٹرویو  میں  وزیر اعظم نے کہا کہ امریکی فوجی انخلا کے بعد  طالبان نے گزشتہ 40 سالوں میں پہلی بار پورے ملک پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جس  سے  پورے افغانستان میں سکیورٹی قائم ہونے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کو سابقہ حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ سے انسانی بحران کا سامنا ہے، اسے  ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔

اس کے علاوہ ہمیں افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں بالخصوص ٹی ٹی پی کو بے اثر کرنے کیلئے کابل میں حکام کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ایک سوال  کے جواب میں  وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ دونوں کو افغانستان میں دہشت گردی کو روکنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں انسانی بحران سے نمٹنے اور معاشی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے افغانستان کے استحکام میں مدد کے لیے تعاون کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یقینا ًکابل سے فوری امریکی انخلا کی وجہ سے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں،تاہم امریکہ نے افغانستان سے رضاکارانہ طور پر اپنی فوجیں واپس بلالیں ہیں، اس لئے مجھے نہیں لگتاکہ اس سے امریکی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔جہاں تک چین کا سوال ہے،اگر چین نے افغانستان کو اقتصادی امداد کی پیشکش کی تو یقینا ًافغان عوام اسے قبول کرینگے۔عمران خان نے کہا کہ طالبان نے سی پیک منصوبے اور چین کیساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کا خیر مقدم کیا ہے۔

تاہم امریکہ بھی افغانستان میں انسانی امداد فراہم کر کے  افغانستان کی بحالی اور تعمیر نو میں حصہ ڈال کر اور دہشت گردی پر قابو پانے میں تعاون کر کے افغانستان میں اہم اور مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ دوحہ امن عمل کے دوران  امریکہ نے طالبان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کی جبکہ انخلا ئ  کے عمل کے دوران امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست تعاون تھا۔

مجھے یقین ہے کہ امریکہ افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات اور علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے۔ اسلامی امارات افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان نے ایک " عبوری حکومت" قائم کر رکھی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بعد میں مستقل حکومتی ڈھانچے کا اعلان کریں گے۔

پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ افغانستان میں اصل(ڈی فیکٹیو) حکام کے ساتھ رابطے رکھے ، تاکہ اس ہمسایہ ملک میں معاشی اور انسانی تباہی اور دہشت گردی  کو پنپنے  سے  روکا جا سکے۔عمران خان نے کہا کہ ایک بار کابل میں حکومت کا پورے ملک پر کنٹرول قائم ہو جائے ، تو وہ قانونی طور پر تسلیم کے لیے اہل ہو جاتی ہے۔ تاہم  پاکستان افغانستان کے دیگر پڑوسیوں کے ساتھ مل کر نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کسی فیصلے تک پہنچنے کو ترجیح دے گا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یقینا ًافغانستان میں درحقیقت ایسے دہشت گرد گروہ پائے جاتے ہیں جو افغانستان کے تنازعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں پناہ لیں۔ پاکستان کو افغانستان سے دہشت گردی بالخصوص ٹی ٹی پی سے خطرے کے بارے میں انتہائی تشویش لاحق ہے ، جس نے افغانستان کی سرزمین سے بعض دشمن خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی اور مدد سے پاکستان کے خلاف ہزاروں حملے کیے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں پر زیادہ تر حملوں کا ذمہ دار ر ہی  ہے ، شاید انہیں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کا تعاون بھی حاصل ہو۔ پاکستان افغانستان میں حکام کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردی کو افغانستان سے  کارروائیاں  کرنے  سے روکنے کے لیے کام کرے گا۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان افغانستان سے دہشت گردوں کے خطرات پر قابو پانے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کو فروغ دینا چاہتا ہے۔

اس سلسلے میں ہم امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری کیساتھ تعاون کریں گے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کو امریکی فوجی مدد اور نام نہاد ”کواڈ“ کا مقصد چین کا راستہ روکنا ہے ۔ اس حکمت عمل کے حوالے سے پاکستان کا اپنا نکتہ نظر ہے۔ ہماری نظر میں امریکہ افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات اور علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے۔

بھارت امریکی سٹریٹجک مفادات کی تکمیل کیلئے کبھی بھی چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بھارت کی جانب سے بے تحا شا اسلحہ خریداری کا مقصد جنوبی ایشیا میں اپنا تسلط قائم کرنا اوربالخصوص پاکستان کو دھمکانا ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام بھارتی فوجی صلاحیتوں میں سے ستر فیصد چین نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف تعینات کی ہیں ، اس لیے پاکستان کو بھارت کو جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کے بارے میں جائز تحفظات ہیں۔

جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ ،تنازعات کے امکانات کے علاوہ ، ہندوستان اور پاکستان دونوں کو سماجی و اقتصادی ترقی اور اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود میں سرمایہ کاری سے ہٹا دے گی۔پاک چین سٹریٹجک تعلقات کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات 70 سال پرانے ہیں جو اقتصادی ، تکنیکی ، فوجی اور دیگر شعبوں پر محیط ہے۔

اس پورے عرصے میں  پاکستان نے بیک وقت امریکہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم رکھے ہیں۔ درحقیقت ، یہ پاکستان ہی تھا جس نے پہلی بار 1971 میں امریکہ اور چین کو ملایا تھا۔ ہم چین کے ساتھ اپنی سٹریٹجک شراکت داری کی کوئی وجہ نہیں دیکھتے جو امریکہ کے ساتھ تعاون پر مبنی تعلقات پر اثر انداز ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور چین کی موجودہ دشمنی غیر ضروری اور دونوں عالمی طاقتوں کے مفادات کے برعکس ہے۔

  دونوں طاقتوں کے مابین تعاون دونوں کے لیے فائدہ مند ہو گا او ان بے شمار عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے جو ہمیں درپیش ہیں ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بیجنگ اور واشنگٹن دونوں مستقبل قریب میں ایک ہی نتیجے پر پہنچیں گے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم ایس سی او کو علاقائی تنظیم کے طور پر انتہائی اہمیت دیتے ہیں ۔

ایس سی او سمٹ میں ، میں نے  افغانستان  کی  موجودہ صورتحال کے بارے میں پاکستان کا نقطہ نظر پیش کیا اور افغانستان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے خطے کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ممکنہ راستہ کی نشاندہی کی۔انہوں نے کہا کہ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مثبت رویہ اختیار کرتا ہے تو ایس سی او ایشیائی براعظم کے اس وسیع علاقے میں استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے ایک مفید پلیٹ فارم کے طور پر کام کر سکتا ہے۔

سی پیک سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ چین پہلے ہی سی پیک کی چھتری تلے تقریبا ً25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے جبکہ 20 ارب ڈالر  مالیت کے اضافی منصوبے زیر عمل ہیں،اس کے علاوہ مزید 25 ارب ڈالر کے منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ اگر چہ کوویڈ 19 وبائی امراض نے بعض منصوبوں پر عملدرآمد کو سست کر دیا ہے۔ تاہم ، سی پیک کے مقاصد شیڈول کے مطابق حاصل کیے جا رہے ہیں اور مستقبل میں ان پر عمل درآمد تیز کیا جائے گا۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ اور جی سیون کے "بہتر دنیا کی تعمیر" اقدام کا خیر مقدم کیا گیا ہے، ہم اسے چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ کے مقابلے میں نہیں دیکھتے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو انفراسٹرکچر اور دیگر منصوبوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا سکتا ہے ۔یہ اقدام ترقی پذیر ممالک کو اپنے ترقیاتی مقاصد اور پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے قابل بنانے کے لیے بہت اہم ہے۔

امر یکہ  کی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کامیابی و ناکامی کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ نائن الیون کی ذمہ دار تنظیم القاعدہ ، افغانستان میں ختم ہو چکی ہے ، جس کی بڑی وجہ گزشتہ 20 سالوں میں پاکستان امریکہ انسداد دہشت گردی تعاون ہے۔تاہم ، دہشت گردی کی بنیادی وجوہات — تنازعات ، معاشی اور سماجی ناانصافی دور کرنے پر توجہ نہیں دی گئی،جس کے نتیجے میں ، دہشت گرد گروہوں کا نظریہ اور بیانیہ افریقہ سمیت دنیا کے کئی علاقوں میں پھیلا اور نئی دہشت گرد تنظیمیں سامنے آئی ہیں۔

اس کے علاوہ دنیا کے کئی حصوں میں مسلم مخالف انتہا پسند تحریکیں اور دہشت گرد گروہ ابھرے ہیں۔ ہم ہندوستان کے انتہا پسند ہندوتوا نظریے میں اس طرح کے اسلاموفوبیا کا مضبوط ترین مظہر دیکھتے ہیں ، جس نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں اور 200 ملین ہندوستانی مسلمان "اقلیت" کے خلاف ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی شروع کر کھی ہے۔دنیا کو دہشت گردی کے ان نئے مظاہر سے نمٹنے کے لیے ایک نئی اور جامع عالمی انسداد دہشت گردی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے اثرات سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ چار دہائیوں کی جنگ اور تنازعات نے افغانستان کی معیشت ، معاشرے اور سیاست پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ "طویل جنگ" کے خاتمےسے افغانستان اور خطے میں امن ، استحکام اور ترقی لانے کے لیے آج امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 20 سال کی فوجی مداخلت کے بعد ، عالمی برادری افغانستان کے لوگوں کے حوالے سے خود کو  اپنی ذمہ داریوں سے مبرا قرار نہیں دے سکتی،اسے افغانستان کے ساتھ منسلک رہنا ہوگا۔

ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان کو انسانی ، اقتصادی مدد ، رابطوں اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے مستحکم کیا جائے گا جبکہ امریکہ ، چین اور روس سب مل کر افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ ڈالیں گے۔وزیر اعظم نے خبردار کیا کہ اگر افغانستان کے اندر ، علاقائی ریاستوں اور عالمی طاقتوں کے درمیان دشمنی برقرار رہتی ہے تو یہ افغانستان میں تشدد اور تنازعات کے ایک نئے دور کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے مہاجرین کا نیا بہائو پیدا ہوگا ، افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ بڑھ جائے گا اور پورے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات